Free AIOU Solved Assignment Code 6486 Spring 2024

Free AIOU Solved Assignment Code 6486 Spring 2024

Download Aiou solved assignment 2024 free autumn/spring, aiou updates solved assignments. Get free AIOU All Level Assignment from aiousolvedassignment.

ANS 01

ہمارے معاشرے میں لڑکیوں کو عام طور پر بچپن ہی سے گھر کے مختلف کام سکھا دیے جاتے ہیں۔ سینا پرونا، سلائی کڑھائی، صفائی ستھرائی، کھانا پکانا، ماں باپ اور بہن بھائیوں کی ضروریات کا خیال رکھنا اور اسی طرح کے دوسرے کام لڑکی کی ذمہ داریوں میں شامل ہوتے ہیں۔ گھر اوراپنی ذات کو سجانا اورسنوارنا دنیا کی تقریباً تمام خواتین کا بنیادی اور پیدائشی شوق ہوتا ہے۔ یہی شوق جب تعلیم کی شکل میں پورا ہو تو خواتین کی دلچسپی اس میں مزید بڑھ جاتی ہے۔ گھریلو انتظام جیسا کہ نام سے ظاہر ہے گھر اور اہل خانہ کے درمیان تعلقات کی معاشیات کا علم ہے۔ گھریلو انتظام کی تعلیم فرد کا طرز زندگی پر آسائش، آرام دہ او رپرسکون بنانا اس کا نصب العین ہے۔ گھریلو انتظام جدید سائنس کے تمام تر ذرائع کو بروئے کار لاتے ہوئے انفرادی، معاشرتی، ملکی اور عالمی سطح پر آسائشیں مہیا کرنے کا نام ہے۔
گھریلو انتظام کا علم لڑکیوں میں غذا، لباس، رہائش او رتعلیم کے بارے میں عمدہ سوچ کی استعداد پیدا کرتا ہے، اور لڑکیوں کے لیے نہ صرف شان دار پیشے اور ملازمتیں بلکہ کامیاب عائلی زندگی بھی فراہم کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گھریلو انتظام کے علم کو جدید سائنسی مضامین میں سے ایک کہا گیا ہے۔

کچھ عرصہ قبل تک ہماری معاشرتی روایات میں خواتین کا ملازمت کرنا ناپسندیدہ اور معیوب سمجھا جاتا تھا لیکن اب آہستہ آہستہ لوگوں کی سوچ اور فکر کا انداز مثبت ہوتا جارہا ہے اور خواتین بھی زندگی کے مختلف شعبوں میں ملازمتیں کرنے لگی ہیں۔ اس ضمن میں گھریلو انتظام ان کے لیے پسندیدہ اور معیاری ملازمتیں پیش کرتی ہے۔ 

گھریلو انتظام گروپ کی نویں اور دسویں جماعت کی طالبہ کو دو لازمی مضامین پڑھائے جاتے ہیں۔ میٹرک کے بعد کالج برائے گھریلو انتظام میں طالبہ داخلہ لے سکتی ہیں لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ میٹرک میں اور خاص طور پر ان دو لازمی مضامین میں امتیازی نمبروں سے کامیابی حاصل کریں۔ پاکستان میں گھریلو انتظام کی تعلیم کے لیے کل سات ادارے ہیں اور طالبات کی ایک بڑی تعداد ان میں داخلے کی خواہش مند ہوتی ہے۔ لہٰذا میٹرک میں امتیازی نمبر لانا ضروری ہے۔

گھریلو انتظام میں تمام مضامین خواتین کی دلچسپی سے متعلق ہوتے ہیں۔ تاہم سندھ، سرحد اورپنجاب کے اداروں کے نصاب میں معمولی فرق ہے، سندھ میں کراچی، حیدر آباد اور خیر پور کے کالج برائے گھریلو انتظام کا نصاب یکساں ہے۔ یہاں ایف ایس سی سال اوّل اور دوم میں مندرجہ ذیل مضامین پڑھائے جاتے ہیں۔

اردو، انگریزی، غذا اور غذائیت، پارچہ بافی اور لباس، اطلاقی فنون، طبیعیات، کیمیا، انتظام طعام وتحفظ غذا، گھریلو ملبوسات کے مسائل، گھریلو انتظام،بچوں کی نشوونما، خاندانی تعلقات، معارفِ اسلامیہ، مطالعہء پاکستان۔

بی ایس سی میں پڑھائے جانے والے مضامین کی تفصیل یہ ہے:
انگریزی، اسلامک آئیڈیا لوجی یا تحریکِ پاکستان، متعلقہ فنون، غذائیت ، نامیاتی و حیاتی کیمیا، سوشل سائنسز ، بچپن و بلوغت ، گھریلو انتظام، لباس اور پارچہ بافی( اعلیٰ) گھریلو انتظام (رہائش اور مکان) خاندانی و طبقاتی ترقی، فنون اور تاریخ سماجیات پڑھائے جاتے ہیں۔
ان مضامین کے علاوہ طالبات کو مندرجہ ذیل مضامین میں سے دو کا انتخاب کرنا ہوتا ہے۔
فنون و دست کاری، تجرباتی غذائیں، بچوں کی دیکھ بھال، مدرسہء اطفال کا انتظام، زبان و ادب، تعلیم برائے گھریلو انتظام، انتظامِ ادارہ، پارچہ بافی اور

پنجاب، سرحد اور آزاد کشمیر کا نصاب تقریباً یکساں ہے۔ یہاں یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ لاہور اور پشاور کے کالجوں میں ایف ایس سی کا سرٹیفکیٹ نہیں دیا جاتا بلکہ میٹرک کے بعد بی ایس سی کا چار سالہ کورس کرایا جاتا ہے۔ لاہور کالج کے بی ایس سی سال اوّل اور دوم میں پڑھائے جانے والے مضامین میں غذا اور غذائیت ، کیمیا، لباس اور پارچہ بافی، گھریلو انتظام، انگریزی، اردو، اسلامک اسٹیڈیز، انتظام طعام اور تحفظِ غذا، حیاتیات وعلمِ جراثیم، متعلقہ فنون، بچے کی نشوونما، گھریلو لباس اور گھریلو پاچہ بافی، انگریزی ،مطالعہء پاکستان، اور اردو شامل ہیں۔ سال سوم میں انگریزی، گھریلو انتظام اور گھریلو انتظام، گھریلو طبیعیات، معارفِ اسلامیہ، عمومی نفسیات، لباس(اعلیٰ) اور حیاتی کیمیا، لازمی مضامین ہیں اور متعلقہ فنون، تجرباتی غذا، بچوں کی دیکھ بھال اور نرسری اسکول کے مسائل میں سے کسی ایک مضمون کو منتخب کرسکتے ہیں۔ سال آخر میں انگریزی، گھر اور گھر کی رہائش، خاندان و برادری، غذا اور غذائیت(اعلیٰ) متعلقہ فنون(اعلیٰ) غذائیت میں سے ایک مضمون منتخب کیا جاسکتا ہے۔ جب کہ انتظامِ ادارہ یا تعلیم برائے گھریلو انتظام میں سے ایک مضمون کا انتخاب کرسکتے ہیں۔ یہ نصاب لاہور کالج برائے گھریلو انتظام اور کلیہ برائے گھریلو انتظام کالج اسلام آباد کے لیے ہے۔ لاہور کالج کے بی ایس سی سال اوّل ، دوم ،سوم او ر چہارم کا نصاب اسلام آباد کالج میں ایف ایس سی سال اوّل دوم اور بی ایس سی سال اوّل دوم کے نصاب میں پڑھایا جاتا ہے۔

لاہور اور پشاور کے کالجوں میں جن مضامین میں ایم ایس سی کرایا جاتا ہے ان میں غذا اور غذائیت، لباس اورپارچہ بافی،نشوونما ئے اطفال اور خاندانی تعلقات، متعلقہ فنون، اورانتظامِ خانہ قابلِ ذکر ہیں۔ ایم ایس سی سال اوّل میں انٹرمیڈیٹ کی طالبات کو تعلیم دینی ہوتی ہے۔ مضمون سے متعلق کسی عام دلچسپی کے موضوع پر مقالہ تحریر کرنا ہوتا ہے۔ لیکن اگر کوئی طالبہ مقالہ تحریر نہ کرنا چاہے تو اسے اپنے مضمون سے متعلق اضافی پرچہ دیناہوتا ہے۔
فیس اوردیگر اخراجات 

گھریلو انتظام ایف ایس سی سال اوّل میں داخلے کے لیے طالبات کو اندازاً دو سو روپے کے سالانہ تعلیمی اخراجات برداشت کرنے ہوتے ہیں۔ یہ رقم صرف کالج کے تدریسی اور غیر نصابی اخراجات کے لیے ہے۔ گھریلو انتظام میں طالبات کوچوں کہ زیادہ تر تجرباتی کام کرنے ہوتے ہیں لہٰذا تجربوں کے لیے سامان کی خریداری پراچھی خاصی رقم خرچ کرنی ہوتی ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق ایف ایس سی سال اّول میں تقریباً ساڑھے تین ہزار، سال دوم میں تقریباً دو ہزار بی ایس سی سال اوّل میں تقریباً تین ہزار،سال دوم میں تقریباً ساڑھے تین ہزار روپے ایک طالبہ کو خرچ کرنے پڑتے ہیں۔

گھریلو انتظام کی تعلیم حاصل کرنے والی خواتین کے لیے باعزت معزز اورمحترم پیشے اور ملازمتوں کے لا محدود مواقع ہیں۔ گھریلو انتظام کے مختلف مضامین میں گریجویشن اور پوسٹ گریجویشن کرنے والی خواتین کے لیے نہایت موزوں ملازمتیں ہیں جن میں اہم یہ ہیں:
ڈائی ٹیشن، فوڈسائنٹسٹ وٹیکنالوجسٹ، ٹیکسٹائل ڈیزائنر و ٹیکنالوجسٹ، کیٹرنگ منیجر، انٹیریئر ڈیزائنر، ٹیچر،نرسری اسکول کی منتظمہ، کمیونٹی ورکر،ڈریس ڈیزائنر، فنون اور اس سے متعلقہ شعبے وغیرہ ۔ 

گھریلو انتظام کا شعبہ ان لڑکیوں کے لیے نہایت سود مند ہے جن میں تخلیقی صلاحیتیں بہ درجہ اتم موجود ہوں۔ نفاست پسند،باریک بین اور دوراندیش، خاندان اور معاشرے میں مل جل کر رہنے کی صلاحیت ہو ،پرکشش شخصیت کی مالک ہوں۔ اپنے حلقہء احباب میں پسند کی جاتی ہوں ، ذمہ داری اورفرض شناسی کا احساس ہو، خانہ داری میں خصوصی رجحان اور دلچسپی خاص اہمیت کی حامل صلاحیتیں ہیں ،ہر کام منظم اور احسن طریقے سے کرسکتی ہوں، تدریس کے شعبے میں دلچسپی رکھنے والی خواتین کے لیے ضروری ہے کہ ان میں خود اعتمادی، صبرو تحمل ہو، شفیق ہوں اور بچوں کی نفسیات سے واقف ہوں۔ جب کہ پارچہ بافی، ڈریس ڈیزائنر اور انٹیریئر ڈیزائنر میں دلچسپی رکھنے والی خواتین کے لیے لازمی ہے کہ ان کا ذہن منطقی اورتخلیقی صلاحیتوں کا حامل ہو۔ اپنے شعبے سے گہری وابستگی، عمدہ ذوق، حاضر دماغی،ذہانت بھی لازمی شرائط ہیں۔ سماجی، رفاہی اداروں کمیونٹی سینٹر میں کام کرنے کی خواہش مند خواتین کو مضبوط اعصاب کا حامل، بے خوف، غیر جانب دار، معتدل مزاج، خوش گفتار اورجراء ت مند ہونا چاہیے۔

AIOU Solved Assignment Code 6486 Spring 2024

ANS 02

صنعتی انقلاب اور جدید دنیا کے خطرات کا سامنا ہونے کا مشاہدہ ہونے والے کنبے نے انیسویں صدی میں سماجی سوچ و افکار کے ایک اہم موضوع کی حیثیت حاصل کی ہے۔ سماجی علوم کے ماہرین دو بنیادی اسباب کی بنا پر خاندانی معاملات میں دلچسپی لیتے آئے ہیں۔ان میں سے پہلا سبب سماجی ڈھانچے کے اندر ہر فرد کا کسی کنبے کا رکن ہونا، اور اس بنا پر معاشرے کے ہر فرد کے لیے گھر بساناکسی تجربے کو حاصل کرنے کی حیثیت بھی رکھتا ہے۔ دوسرا سبب سماجی تبدیلی کے عمل کےدوران خاندان کے اندر ہونے والی اور پیش آنے والی تبدیلیوں کا کسی متحرک ڈھانچے کا حامل ہونے میں پوشیدہ ہے۔
کسی معاشرے کے بیج خاندان بوتے ہیں۔کسی ملت کے مستقبل کے موضوع پر اقدار کے اعتبار سے خاندانی ڈھانچے کا جائزہ لیتے ہوئے ایک نمایاں سطح کا تخمینہ لگانا ممکن ہے۔ اقدار و ثقافت کسی معاشرے کو معنی اور اہمیت دلانے والے پیمائش کے پیما نے ہیں۔مسلمان معاشرے کی قدر و قیمت کا پیمانہ اسلامیت ہے۔ دین اسلام میں خاندان کو ایک مقدس ادارہ مانا جاتا ہے۔ مسلمان کنبہ اس تقدس کو عظیم ترین ذرائع کے حامل قرآنِ کریم اور سنت کی بدولت حاصل کرتا ہے۔ موجودہ صدی کےا وائل سے ثبوتیت پسندی کا نظریہ اور سوچ نے مسلمانوں کی ثقافت اور تخیل کو متاثر کرنا شروع کردیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ زندگی کے تما م تر شعبوں سے دین کو خارج کرنے کی کوششیں کسی مسلمان فرد کی خاندانی زندگی میں وسیع پیمانے کے گھاؤ پیدا ہونے کا موجب بن رہی ہیں۔ اس صورتحال کا علماء کی طرف سے اندازا کیے جانے کے باوجود اس کے حل چارے میں دیگر طرائق کو استعمال کرنے کی کوشش، دوسرے الفاظ میں انسانی فطرت کے منافی طریقہ کار پر عمل درآمد ، زخم کو تندرست کرنے کے بجائے مزید خراب کرتے ہوئے اسے مہلک بنانے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔ در پیش مسئلے پر اس قسم کا مؤقف مرض سے نجات پانے کے بر عکس اسے پرانی بیماری بناتے ہوئے اس سے بچنے کے امکانات کو معدوم کر دیتا ہے۔
اس سطح پر دین پر بھاری ذمہ داریا ں عائد ہوتی ہیں۔اس لحاظ سے قرآنی آیات میں کنبے کی بنیاد ہونے والے ازداجی رشتے کو خاصی اہمیت دیے جانے کا ذکر موجود ہے۔ کسی خوشگوار اور خوش آئند مستقبل کے حوالے سے کنبے کے افرادکو علیحدہ علیحدہ ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں۔خاندان بچوں کا مذہبی تعلیم کے زیور سے آراستہ ہونے کا پہلا مرحلہ ہوتا ہے۔ اس کے ارکان کو دینی علم دینے کے ساتھ ساتھ بیک وقت ایک مذہبی ادارے کی ذمہ داری بھی سونپی جاتی ہے۔ کنبہ اس کے افراد کی عبادت اور مذہبی فرائض کو منظم کرتا ہے۔ کنبے کے بزرگ دینی اقدار اور عادات کو نسل در نسل آگے بڑھاتے چلے آئے ہیں اور فراہم کردہ مذہبی تعلیم پر کنبے کے افراد کے عمل درآمد کرنے یا نہ کرنے کا جائزہ لینے کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔
اسلامیت میں خاندانی حقوق کی بنیادی خصوصیات پر زوردیتے اس حوالے سے تفصیلی معلومات فراہم کی گئی ہیں۔ہر چیز سے پہلے ازدواجی رشتے کی بنیاد سول اور خود مختار میدان میں ڈالی جانی چاہیے۔شادی کے معاہدے کو کسی مہذب اور متمدن عمل کا درجہ دیے جانے پر خصوصی توجہ دی گئی ہے۔ شادی کا بندھن عارضی نہیں ہوتا، اس کے مسلسل طور پر جاری رہنے کی ضرورت کی سوچ سُنی اسلام کا بنیادی اصول ہے۔ یہ چیز شادی کو ایک عارضی مفاد کے بجائے طرفین کو دیے جانے والے اعتماد و بھروسے کی بدولت خاندانی ادارے کو تقویت بخشتی ہے۔ آج مثبت نوعیت کے قوانین میں بھی اہمیت کا حامل ایک معاملہ بعض افراد کے ساتھ ازدواجی رشتے کو ابدی طور پر ممنوع قرار دینا ہے تو بعض افراد کے ساتھ شادی کا رشتہ قائم کرنے کو بعض حالات میں ممنوع دیا گیا ہے۔
گو کہ میاں بیوی کے درمیان شادی کے بندھن کے خاتمے کو جائز قرار دیے جانے کے ساتھ ساتھ اس چیز کو نا پسند یدہ صورتحال قرار دیا گیا ہے۔ کیونکہ طلاق پہلی نظر میں محض میاں بیوی اور عائلی افراد سے تعلق رکھنے والا ایک عمل دکھائی دیتا ہے تو درحقیقت یہ سماج اور سماجی زندگی کے ساتھ قریبی تعلق ہونے والا ایک اہم اور نازک معاملہ ہے۔ حالیہ دور میں طلاق کا عمل دنیا بھر میں ہر گزرتے دن طول پکڑتا جا رہا ہے تو مغربی معاشرے میں اس عمل کا واضح طور پر مشاہدہ ہوتا ہے۔ جو کہ ایک توجہ طلب موضوع ہے۔ طلاق جیسے نا پسندیدہ عمل کا موجب بننے والے مختلف سماجی و ثقافتی اور انفرادی معاملات اس موضوع پر بحث چھڑنے کا باعث ہیں۔خاص طور پر جدید اداروں کے منظر عام پر آنا، بدلتی ہوئی اقدار ، تنہائی و آزادی کی طرح کی تبدیلیوں کا ایک اہم مظہر ہے۔ جدید اداروں کا عائلی کردار کو اپنے ہاتھ میں لینا، روایتی ازدواجی تعلقات میں تبدیلیاں پیدا کرتے ہوئے طلاق کے واقعات میں اضافے میں خطرہ عنصر کے طور پر تصور کیا جاتا ہے۔ کنبے کو تحفظ دلانے والی مذہبی اقدار کا کمزور پڑنا اس ضمن میں اہم ترین عنصر ہونے کو عیاں کرتا ہے۔ لہذا جدید معاشرہ کنبے اور کنبے کے اندرونی تعلقات اور معاملات میں کسی سیمنٹ کا کام کرنے والی دینی اقدار کا پہلے سے کہیں زیادہ ضرورت مند ہے۔

AIOU Solved Assignment 1 Code 6486 Spring 2024

ANS 03

ہمیں اپنا بجٹ ان چھ حصوں میں تقسیم کرنا چاہیے، جس کی تفصیل یہ ہے:

۱۔ ضروریات زندگی % 55: معاشی حوالے سے ہماری روز مرہ کی زندگی میں سب سے اہم ہمارے گھریلو اخراجات ہی ہوتے ہیں۔ گھر کے ضروری سامان، ادویات،کرایہ، راشن، بجلی گیس بلز، اسکول فیس، گھر کے افراد کی پاکٹ منی وغیرہ ہر گھر کی بنیادی ضرورت ہے۔ اس لیے آپ کی آمدنی کا 55% حصہ آپ کی ضرویاتِ زندگی (necessities) کے لیے ہونا چاہیے۔ آپ چاہیں تو اسے اپنی ضرورت کے مطابق کم یا زیادہ بھی کرسکتے ہیں۔

۲۔تعلیم: 10%:علم حاصل کرنا اور سیکھنا دراصل انسانیت کا بنیادی شرف ہے اور آپ کے لیے بھی ضروری ہے کہ آپ ہر ماہ اپنی آمدنی کا ایک معقول حصہ جو ایکر کے مطابق 10 فیصد ہونا چاہیے، تعلیم پر ضرور خرچ کریں۔ گھر کی مجموعی سطح پر آپ اس میں سے بچوں کی اضافی فیس، کتب وغیرہ کے اخراجات کرسکتے ہیں جبکہ انفرادی سطح یعنی اپنے لیے رکھی گئی پاکٹ منی میں سے یہ حصہ آپ مختلف کورسز کتب وغیرہ میں صرف کرسکتے ہیں۔ یہ یاد رکھیں کہ اس حصے کو غیرضروری سمجھ کر نظر انداز نہ کیجیے بلکہ سیکھنے میں انوسیٹمنٹ آپ کی بہتر زندگی کے لیے بالکل ضروری ہے۔

غیر متوقع/لانگ ٹرم پلاننگ 10%:غیر موقع یا لانگ ٹرم پلاننگ کے لیے آپ اپنی آمدنی کا دس فیصد حصہ مختص کرلیجیے۔ یہ وہ خرچہ ہے جو یا تو آپ کے لانگ ٹرم پلان میں موجود ہو، مثلاً آپ کو مہنگا لیپ ٹاپ،فرنیچر، گاڑی یا گھر لینا ہے، کسی کی شادی کے اخراجات ہیں ، یا تعلیم کے سلسلے میں داخلہ فیس یا خواہ کسی خیراتی کام کے حوالے سے کوئی پلان ذہن میں ہو، اس طرح کے تمام اخراجات جو مستقبل میں ہوسکتے ہیں اس کے لیے آپ ہر ماہ دس فیصد لازماً محفوظ کریں۔ اگر آپ کے پاس ایسے کوئی اخراجات یا پلان نہیں ہے تو بھی اسے آپ محفوظ ضرور کیجیے تاکہ اپنے لائف اسٹائل کو بہتر بنانے یا پھر کسی نیک مقصد سے کسی بڑے کام کو مکمل کرنے میں آپ کو آسانی رہے۔

فنائنشل فریڈم اکاؤنٹ/لانگ ٹرم پلاننگ 10%:یہ دس فیصد حصہ آپ کو ہر ماہ اپنی آمدنی میں سے نکالنا ہے اور اسے محفوظ کرکے مکمل طور پر بھول جائیں اور کسی بھی صورت حال میں اس رقم کو نہ چھیڑیں۔ اس رقم کا اصل مقصد آپ یا آپ کے اعزا و اقربا کا محفوظ مستقبل ہے۔ بڑھاپے یا خدانخواستہ کسی ناگہانی صورت حال میں یہ رقم آپ کے کام آسکتی ہے۔یہ یاد رہے کہ ہر ماہ آپ کو یہ رقم محفوظ کرنی ہے اور اسے رکھ کر بالکل بھول جائیں اور کسی بھی صورت اسے استعمال نہ کریں الّا یہ کہ کوئی ناگہانی صورت ہو۔

کھیل و تفریح/لانگ ٹرم پلاننگ 10%:اپنی ذہنی و جسمانی صحت کو بہتر رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ اپنی زندگی میں مناسب کھیل و تفریح بھی شامل رکھیں۔ اس لیے آپ کی آمدنی میں دس فیصد حصہ آپ کے کھیل و تفریح کے لیے ہونا چاہیے۔ جس میں آپ ہر ماہ یا جمع کرکے ہر کچھ ماہ بعد پکنگ ٹور وغیرہ پر جاسکتے ہیں۔ باہر کھانا،کھیل کے نئے سامان لینا، پارٹی وغیرہ اسی میں شامل ہے۔

انفاق فی سبیل اللہ %5:سب سے آخر لیکن اہم یہ ہے کہ آپ اپنی آمدنی میں سے اللہ کی راہ میں بھی لازماً خرچ کریں۔انفاق فی سبیل اللہ اپنے مال و نفس کو پاک کرنے کےلیے انتہائی ضروری ہے۔ یہ عمل اس لیے ضروری ہے کہ ہمارا مال عیش و عشرت کا سامان بننے کے بجائے ہمارے لیے آخرت سنوارنے کا ذریعہ بنے۔ہماری زندگی کا مقصد صرف یہ نہیں ہے کہ ہم اپنی خواہشات کی تکمیل کرتے رہیں بلکہ جس ہستی پاک اللہ رب العزت نے ہمیں مال سے نوازا ہے، اپنی آمدنی سے اس کی عبادت اور اس کی راہ میں خرچ کرنا بھی ضروری ہے۔ یہ واضح رہے کہ انفاق فی سبیل اللہ کے لیے ضروری نہیں کہ آپ کے پاس مال و دولت کی فروانی ہو، یا مڈل کلاس کے افراد اس سے مستثنیٰ ہیں۔ انفاق فی سبیل اللہ میں امیر و غریب اپنی اپنی استطاعت کے مطابق سبھی شامل ہیں۔ ہر شخص اپنی آمدنی اور حیثیت کے مطابق خرچ کرسکتا ہے اور ضرور کرنا چاہیے۔ ہاور ایکر کہتے ہیں کہ ہمیں اپنی آمدنی کا کم از کم پانچ فیصد چیرٹی میں خرچ کرنا چاہیے۔ بالفرض آپ کی آمدن 10 ہزار روپے ہے تو پانچ فیصد کے حساب سے آپ ہر ماہ 500 روپے اللہ کی راہ (Charity) میں خرچ کرسکتے ہیں۔ تاہم اپنی استطاعت کے مطابق اس میں کمی یا زیادتی (مثلاً بیس فیصد یا پانچ فیصد ) ہوسکتی ہے۔ ہمارے ہاں یہ غلط فہمی بھی ہے کہ جب اللہ کی راہ میں خرچ کا بولا جائے تو اس سے مراد وہ پروفیشل بھکاریوں کو بھیک دینا سمجھتے ہیں۔ حالانکہ انفاق ایک وسیع مفہوم رکھتا ہے۔ اس میں تعلیمی ادارے، ہسپتال، پانی کا انتظام، کسی کے روزگار کی ضرورت پوری کرنا، دعوت یا ہر اس کام میں مالی معاونت ہوسکتی ہے جس میں کسی مسلمان کی بھلائی ہو۔

یہ بجٹ سسٹم ہاور ایکر کا بنایا ہوا ہے جس میں 55 فیصد ضروریات کے لیے باقی امور کے لیے دس دس فیصد رقم مختص کی گئی ہے۔ آپ چاہیں تو مختلف حصوں کے تناسب (یعنی فیصد) کو اپنی آمدنی اور ضروریات کے اعتبار سے بدل سکتے ہیں لیکن یہ ضروری ہے کہ آپ اس اصول پر قائم رہیں اور ہر ماہ اس کے مطابق ہی عمل کریں۔ اگر کسی ماہ کسی ایک حصے میں کوئی خرچ نہ ہو تو آپ مقررہ رقم کو اسی مقصد کے لیے محفوظ Saving کرلیں۔مثلاً کسی ماہ تفریح وغیرہ کا موقع نہ ملے، یا کوئی بھی تعلیمی اخراجات نہ ہو تو اسے تفریح اور تعلیم کے مقصد کے لیے محفوظ کرلیں۔ مستقبل میں انھی مقاصد کے لیے یہ جمع شدہ رقم آپ استعمال کرسکتے ہیں۔ نیز ہر ماہ یا کبھی کبھار آپ کے کہیں سے کوئی اضافی رقم آجائے ، تو اسے فوری خرچ کے بجائے تین حصے کرکے تعلیم، لانگ ٹرم پلاننگ اور فنائنشل فریڈم اکاؤنٹ میں محفوظ کرلیں۔اب ہم ایک ٹیبل کی مدد سے اس پوری تحریر کا خلاصہ پیش کر رہے ہیں تاکہ آپ آئندہ جب بھی آپ کے ہاتھ سیلری آئے آپ تو اسے صحیح طرح مینج بھی کریں۔

AIOU Solved Assignment 2 Code 6486 Spring 2024

ANS 04

انسانی زندگی میں پیسے یعنی مال کی اہمیت ایک بنیادی ضرورت کی ہے۔ پیسوں کے بغیر نہ ہی ہم اپنے گھر کے اخراجات پورے کرسکتے ہیں اور نہ ہی ایک بہتر زندگی گزار سکتے ہیں۔ سماج میں ایک باعزت اور مستحکم زندگی گزارنے کے لیے یہ بہت ضروری ہے کہ آپ کے پاس ایک معقول رقم اپنے اخراجات کے لیے موجود ہو، یہ معاملہ اس وقت مزید اہم ہوجاتا ہے جب شوہر یا بیوی کی حیثیت سے ہمارے کاندھوں پر ایک خاندان کی ذمہ داری آجاتی ہے۔ کیونکہ گھر کی معاشی صورت حال ٹھیک نہ ہو تو کئی جھگڑے اور مسائل پیدا ہوجاتے ہیں۔

بعض لوگوں کے ساتھ یہ مسئلہ ہوتا ہے کہ ان کے ہاں لاکھوں روپے ماہانہ آمدنی آتی ہے لیکن پیسے آتے ہی پانی کی طرح بہہ جاتے ہیں اور انہیں معلوم بھی نہیں ہوتا کہ یہ کیسے کہاں چلے گئے؟ بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ ہر چیز نوٹ کرلیتے ہیں کہ کہاں کہاں کیا خرچ کیا ہے لیکن ان کے ساتھ بھی یہ مسئلہ بہرحال موجود ہوتا ہے کہ معقول آمدنی کے باوجود اخراجات پورے نہیں ہوپاتے اور ہر ماہ یا کسی بھی شادی، غم یا کسی ہنگامی یا غیر غیرمتوقع اخراجات کے لیے کہیں سے ادھار کا بندوبست کرنا پڑتا ہے۔ ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جنھیں اللہ تعالیٰ نے مال و ثروت سے نوازا ہے ، لیکن ان کے اخراجات بھی اس طرح ہوتے ہیں کہ انھیں پیسوں کا آنا اور چلے جانا کچھ بھی محسوس نہیں ہوتا اور نہ ہی وہ بچت یا سرمایہ کاری کے مواقع پر نظر رکھ پاتے ہیں۔ ان سب کی وجہ یہی ہے کہ ہمارے گھریلو بجٹ کی سمت ،اہداف اور حدود کا بالکل تعین نہیں ہوتا اور نتیجتاً معاشی تنگی پیدا ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ یہ جملہ تو اب بالکل عام ہوچکا ہے کہ پیسے آتے ہیں اور کہاں چلے جاتے ہیں معلوم ہی نہیں ہوتا۔ ان سب مسائل حل یہی ہے کہ ہم نہ صرف اخراجات نوٹ کریں بلکہ منصوبہ بندی کریں اور بجٹ بھی بنائیں۔

مشہور بزنس مین، مصنف اور موٹیویشنل سپیکر ہارو ایکر نے اپنی کتاب Secrets of the Millionaire Mind میں بجٹ سازی کے لیے ایک منفرد نظریہ پیش کیا ہے جسے 6 Jars system کہا جاتا ہے۔ یہ بجٹ بنانے کا ایک طریقہ ہے جس کی مدد سے آپ اپنے اخراجات قابو میں کرسکتے ہیں اور آئندہ کے لیے بھی بچت کرسکتے ہیں۔ اس طریقے کے مطابق آپ کو ماہانہ ملنے والی ہر آمدنی کو چھ حصوں یا Jars میں تقسیم کرنا چاہیے۔ جس کا ایک معیاری تناسب ایکر نے خود طے کیا ہے مثلاً ضروریاتِ زندگی کے لیے 55 فیصد ، تاہم آپ اپنی سہولت اور ضرویات کے مطابق اس تناسب کو اپنے لیے کچھ تبدیل کرسکتے ہیں۔ اس بجٹ سسٹم میں ضروری ہے کہ آپ ہر ایک چیز کے لیے جو رقم مختص کرتے ہیں اس سے تجاوز نہ کریں اور اس پر ہر صورت پابندی سے عمل پیرا رہیں۔ مثلاً آپ نے تعلیم کے لیے اگر 10 فیصد کے حساب سے فرض کریں کہ 2000 روپے مختص کیے ہیں تو پھر 4000 کی فیس والے اداروں میں نہ جائیں بلکہ اپنی چادر کے مطابق ہی پاؤں پھیلائیں۔ یہ بجٹ سسٹم بلامبالغہ لاکھوں لوگ اپنائے ہوئے ہیں اور انھوں نے اس طریقے سے اپنی معاشی زندگی کو انقلابی طور پر بہتر بنایا ہے۔ اس بجٹ سسٹم کے ذریعے آپ اپنی آمدنی اور سیونگ کو اپنے کنٹرول میں رکھ سکتے ہیں اور آپ کو معلوم ہوگا کہ آپ کے وسائل اور مصرف کیا ہیں۔ بہرحال ایکر کے مطابق ہمیں اپنا بجٹ ان چھ حصوں میں تقسیم کرنا چاہیے، جس کی تفصیل یہ ہے:

۱۔ ضروریات زندگی % 55: معاشی حوالے سے ہماری روز مرہ کی زندگی میں سب سے اہم ہمارے گھریلو اخراجات ہی ہوتے ہیں۔ گھر کے ضروری سامان، ادویات،کرایہ، راشن، بجلی گیس بلز، اسکول فیس، گھر کے افراد کی پاکٹ منی وغیرہ ہر گھر کی بنیادی ضرورت ہے۔ اس لیے آپ کی آمدنی کا 55% حصہ آپ کی ضرویاتِ زندگی (necessities) کے لیے ہونا چاہیے۔ آپ چاہیں تو اسے اپنی ضرورت کے مطابق کم یا زیادہ بھی کرسکتے ہیں۔

۲۔تعلیم: 10%:علم حاصل کرنا اور سیکھنا دراصل انسانیت کا بنیادی شرف ہے اور آپ کے لیے بھی ضروری ہے کہ آپ ہر ماہ اپنی آمدنی کا ایک معقول حصہ جو ایکر کے مطابق 10 فیصد ہونا چاہیے، تعلیم پر ضرور خرچ کریں۔ گھر کی مجموعی سطح پر آپ اس میں سے بچوں کی اضافی فیس، کتب وغیرہ کے اخراجات کرسکتے ہیں جبکہ انفرادی سطح یعنی اپنے لیے رکھی گئی پاکٹ منی میں سے یہ حصہ آپ مختلف کورسز کتب وغیرہ میں صرف کرسکتے ہیں۔ یہ یاد رکھیں کہ اس حصے کو غیرضروری سمجھ کر نظر انداز نہ کیجیے بلکہ سیکھنے میں انوسیٹمنٹ آپ کی بہتر زندگی کے لیے بالکل ضروری ہے۔

غیر متوقع/لانگ ٹرم پلاننگ 10%:غیر موقع یا لانگ ٹرم پلاننگ کے لیے آپ اپنی آمدنی کا دس فیصد حصہ مختص کرلیجیے۔ یہ وہ خرچہ ہے جو یا تو آپ کے لانگ ٹرم پلان میں موجود ہو، مثلاً آپ کو مہنگا لیپ ٹاپ،فرنیچر، گاڑی یا گھر لینا ہے، کسی کی شادی کے اخراجات ہیں ، یا تعلیم کے سلسلے میں داخلہ فیس یا خواہ کسی خیراتی کام کے حوالے سے کوئی پلان ذہن میں ہو، اس طرح کے تمام اخراجات جو مستقبل میں ہوسکتے ہیں اس کے لیے آپ ہر ماہ دس فیصد لازماً محفوظ کریں۔ اگر آپ کے پاس ایسے کوئی اخراجات یا پلان نہیں ہے تو بھی اسے آپ محفوظ ضرور کیجیے تاکہ اپنے لائف اسٹائل کو بہتر بنانے یا پھر کسی نیک مقصد سے کسی بڑے کام کو مکمل کرنے میں آپ کو آسانی رہے۔

فنائنشل فریڈم اکاؤنٹ/لانگ ٹرم پلاننگ 10%:یہ دس فیصد حصہ آپ کو ہر ماہ اپنی آمدنی میں سے نکالنا ہے اور اسے محفوظ کرکے مکمل طور پر بھول جائیں اور کسی بھی صورت حال میں اس رقم کو نہ چھیڑیں۔ اس رقم کا اصل مقصد آپ یا آپ کے اعزا و اقربا کا محفوظ مستقبل ہے۔ بڑھاپے یا خدانخواستہ کسی ناگہانی صورت حال میں یہ رقم آپ کے کام آسکتی ہے۔یہ یاد رہے کہ ہر ماہ آپ کو یہ رقم محفوظ کرنی ہے اور اسے رکھ کر بالکل بھول جائیں اور کسی بھی صورت اسے استعمال نہ کریں الّا یہ کہ کوئی ناگہانی صورت ہو۔

کھیل و تفریح/لانگ ٹرم پلاننگ 10%:اپنی ذہنی و جسمانی صحت کو بہتر رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ اپنی زندگی میں مناسب کھیل و تفریح بھی شامل رکھیں۔ اس لیے آپ کی آمدنی میں دس فیصد حصہ آپ کے کھیل و تفریح کے لیے ہونا چاہیے۔ جس میں آپ ہر ماہ یا جمع کرکے ہر کچھ ماہ بعد پکنگ ٹور وغیرہ پر جاسکتے ہیں۔ باہر کھانا،کھیل کے نئے سامان لینا، پارٹی وغیرہ اسی میں شامل ہے۔

انفاق فی سبیل اللہ %5:سب سے آخر لیکن اہم یہ ہے کہ آپ اپنی آمدنی میں سے اللہ کی راہ میں بھی لازماً خرچ کریں۔انفاق فی سبیل اللہ اپنے مال و نفس کو پاک کرنے کےلیے انتہائی ضروری ہے۔ یہ عمل اس لیے ضروری ہے کہ ہمارا مال عیش و عشرت کا سامان بننے کے بجائے ہمارے لیے آخرت سنوارنے کا ذریعہ بنے۔ہماری زندگی کا مقصد صرف یہ نہیں ہے کہ ہم اپنی خواہشات کی تکمیل کرتے رہیں بلکہ جس ہستی پاک اللہ رب العزت نے ہمیں مال سے نوازا ہے، اپنی آمدنی سے اس کی عبادت اور اس کی راہ میں خرچ کرنا بھی ضروری ہے۔ یہ واضح رہے کہ انفاق فی سبیل اللہ کے لیے ضروری نہیں کہ آپ کے پاس مال و دولت کی فروانی ہو، یا مڈل کلاس کے افراد اس سے مستثنیٰ ہیں۔ انفاق فی سبیل اللہ میں امیر و غریب اپنی اپنی استطاعت کے مطابق سبھی شامل ہیں۔ ہر شخص اپنی آمدنی اور حیثیت کے مطابق خرچ کرسکتا ہے اور ضرور کرنا چاہیے۔ ہاور ایکر کہتے ہیں کہ ہمیں اپنی آمدنی کا کم از کم پانچ فیصد چیرٹی میں خرچ کرنا چاہیے۔ بالفرض آپ کی آمدن 10 ہزار روپے ہے تو پانچ فیصد کے حساب سے آپ ہر ماہ 500 روپے اللہ کی راہ (Charity) میں خرچ کرسکتے ہیں۔ تاہم اپنی استطاعت کے مطابق اس میں کمی یا زیادتی (مثلاً بیس فیصد یا پانچ فیصد ) ہوسکتی ہے۔ ہمارے ہاں یہ غلط فہمی بھی ہے کہ جب اللہ کی راہ میں خرچ کا بولا جائے تو اس سے مراد وہ پروفیشل بھکاریوں کو بھیک دینا سمجھتے ہیں۔ حالانکہ انفاق ایک وسیع مفہوم رکھتا ہے۔ اس میں تعلیمی ادارے، ہسپتال، پانی کا انتظام، کسی کے روزگار کی ضرورت پوری کرنا، دعوت یا ہر اس کام میں مالی معاونت ہوسکتی ہے جس میں کسی مسلمان کی بھلائی ہو۔

یہ بجٹ سسٹم ہاور ایکر کا بنایا ہوا ہے جس میں 55 فیصد ضروریات کے لیے باقی امور کے لیے دس دس فیصد رقم مختص کی گئی ہے۔ آپ چاہیں تو مختلف حصوں کے تناسب (یعنی فیصد) کو اپنی آمدنی اور ضروریات کے اعتبار سے بدل سکتے ہیں لیکن یہ ضروری ہے کہ آپ اس اصول پر قائم رہیں اور ہر ماہ اس کے مطابق ہی عمل کریں۔ اگر کسی ماہ کسی ایک حصے میں کوئی خرچ نہ ہو تو آپ مقررہ رقم کو اسی مقصد کے لیے محفوظ Saving کرلیں۔مثلاً کسی ماہ تفریح وغیرہ کا موقع نہ ملے، یا کوئی بھی تعلیمی اخراجات نہ ہو تو اسے تفریح اور تعلیم کے مقصد کے لیے محفوظ کرلیں۔ مستقبل میں انھی مقاصد کے لیے یہ جمع شدہ رقم آپ استعمال کرسکتے ہیں۔ نیز ہر ماہ یا کبھی کبھار آپ کے کہیں سے کوئی اضافی رقم آجائے ، تو اسے فوری خرچ کے بجائے تین حصے کرکے تعلیم، لانگ ٹرم پلاننگ اور فنائنشل فریڈم اکاؤنٹ میں محفوظ کرلیں۔اب ہم ایک ٹیبل کی مدد سے اس پوری تحریر کا خلاصہ پیش کر رہے ہیں تاکہ آپ آئندہ جب بھی آپ کے ہاتھ سیلری آئے آپ تو اسے صحیح طرح مینج بھی کریں۔

AIOU Solved Assignment Code 6486 Autumn 2024

ANS 05

توانائی کی صنعت توانائی کی پیداوار اور فروخت میں شامل تمام صنعتوں کی مکمل حیثیت ہے ، جن میں ایندھن نکالنا ، مینوفیکچرنگ ، تطہیر اور تقسیم شامل ہیں۔ جدید معاشرہ بڑی مقدار میں ایندھن استعمال کرتا ہے ، اور توانائی کی صنعت تقریبا تمام ممالک میں معاشرے کے بنیادی ڈھانچے اور دیکھ بھال کا ایک اہم حصہ ہے۔
خاص طور پر ، توانائی کی صنعت پر مشتمل ہے:

توانائی انسانی بقا کے لئے ناگزیر ہے ، لیکن یہ آج کل بنیادی طور پر استعمال ہوتا ہے۔ پٹرولیم ، کوئلہ ، قدرتی گیس ، پن بجلی ، جوہری ایندھن وغیرہ۔ اس کے علاوہ ، یہاں توانائی کی ایک بڑی مقدار موجود ہے جو بغیر کسی دھیان کے استعمال ہوتی ہے ، جیسے سورج کی روشنی ، گرمی ، ندی کے بہاؤ ، ہوا ، گائے کے گوبر اور فضلہ کی مصنوعات۔ عام طور پر ، توانائی کے وسائل کی ادائیگی کی جاتی ہے۔ اس سے مراد تجارتی وسائل ہیں جن کی آپ کو ضرورت ہے۔

لیکن دو بار تیل کا بحران 1970 کی دہائی کے وسط میں ، جب تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے اور وسائل کی محدود نوعیت زیادہ ہوش میں آگئی ہے ، تو یہ غیر تجارتی توانائی کے ذرائع نئے توانائی کے ذرائع کے طور پر بڑے پیمانے پر استعمال ہوسکتے ہیں۔ یہ تو ہو گیا۔ چاہے ان نئے وسائل کو معاشی طور پر استعمال کیا جا and اور توانائی کا منبع کی حیثیت سے اس کی حیثیت حاصل ہو اس کا انحصار تکنیکی ترقی کی ڈگری پر ہے۔ پچھلی تاریخ میں ، انیسویں صدی کے صنعتی انقلاب کے بعد ، روایتی کھودنے ، چارکول اور وہیل آئل کی بجائے توانائی کا اصل وسیل کوئلہ ، پن بجلی ، تیل اور حال ہی میں ایٹمی ایندھن میں تبدیل کردیا گیا ہے۔ 1 ).

توانائی کے ذرائع کو تبدیل کرنے کی تاریخ

توانائی کے بڑے وسائل میں ہونے والی اس تبدیلی کا احساس تکنیکی ترقیوں کے ذریعے ہوتا ہے ، لیکن دوسری طرف ، اس طرح کی تکنیکی پیشرفت اس وقت ہوتی ہے جب روایتی وسائل کو حاصل کرنا مشکل ہوجاتا ہے ، جیسے قیمتوں میں اضافہ یا وسائل کی کمی۔ حوصلہ افزائی اور ترقی ملی۔ لہذا ، توانائی کا وسیلہ کیا ہوسکتا ہے اور کتنا دستیاب ہے اس کا انحصار تکنیکی اور معاشی حالات پر ہے اور وہ قطعی حدود کی وضاحت نہیں کرسکتے ہیں۔

تاہم ، اصل معاشی سرگرمیوں میں ، یہ سچ ہے کہ معیشت کی نشوونما کے ساتھ ہی توانائی کی کھپت آہستہ آہستہ بڑھتی ہے ، اور توانائی کے مختلف وسائل کی مقدار جو آج کل بنیادی طور پر استعمال ہوتی ہے ایسا لگتا ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ اچانک یہ تبدیل نہیں ہوسکتا۔ اسی وجہ سے ، درمیانی مدت میں ، ضرورت سے زیادہ مانگ ، رسد کی جکڑن ، وسائل کی حدود ، وغیرہ ان توانائی کے وسائل کی اقسام کے لئے مسئلہ بن سکتے ہیں جو وقتی طور پر استعمال ہورہے ہیں۔

توانائی کی طلب اور وسائل کی طویل المیعاد پیش گوئی

دوسری جنگ عظیم کے بعد ، پی سی پوٹنم نے سب سے پہلے توانائی کی طلب کے رجحان اور وسائل کی کثرت کا موازنہ کرکے توانائی کے وسائل ، خاص طور پر ہائیڈرو کاربن وسائل کی حدود کا مقابلہ کرنے کے امکان کی نشاندہی کی۔ (<توانائی کے مسائل کا مستقبل> 1953)۔ پوتنم نے آبادی میں اضافے کی شرح کو اہم عنصر سمجھا جو توانائی کی طلب کے رجحان کا تعین کرتا ہے ، اور اس کے علاوہ ، فی کس توانائی کی کھپت کے بڑھتے ہوئے رجحان پر غور کرتے ہوئے 2050 تک توانائی کی طلب کی پیش گوئی کی گئی ہے۔ اس کے نتیجے میں ، ہائیڈرو کاربن وسائل (کوئلہ ، تیل ، قدرتی گیس) جس پر انسانیت اب تک انحصار کرچکی ہے سپلائی کی گنجائش کی حد تک پہنچ چکی ہے ، اور ہر سال پیدا ہونے والی توانائی (شمسی گرمی ، پن بجلی ، ہوا کی طاقت وغیرہ) کو فطرت میں استعمال کرتی ہے۔ . اس کے باوجود ، میں نے سوچا کہ یہ اب بھی ناکافی ہوگا ، اور نتیجہ اخذ کیا کہ ایٹمی توانائی کی ترقی ضروری ہے۔

توانائی کی طلب کی ایسی طویل مدتی پیش گوئیاں بہت سارے عوامل پر منحصر ہوتی ہیں ، جیسے معاشی ترقی کی ڈگری اور تکنیکی ترقی کی حیثیت ، لہذا پیش گوئی کے نتائج اکثر الجھن میں پڑ جاتے ہیں۔ تاہم ، اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ انسانی معاشی سرگرمیوں میں اضافے اور آمدنی کی سطح میں بہتری آنے کے ساتھ ہی توانائی کی کھپت میں اضافہ ہوتا ہے۔ 1990 کی دہائی کے وسط تک ہر ملک کی آمدنی کی سطح اور توانائی کی کھپت کے مابین تعلقات کو دیکھیں تو یہ دیکھا جاسکتا ہے کہ آمدنی کی سطح اور توانائی کی طلب کے درمیان متناسب تناسب ہے۔ فی کس مجموعی گھریلو مصنوعات اور اعلی توانائی کی کھپت کے مابین باہمی ربط کو دیکھتے ہوئے ، اعلی آمدنی والے توانائی والے گروپ میں امریکہ ، کینیڈا ، سوئٹزرلینڈ ، جاپان ہے ، اور درمیانی آمدنی والے وسطی توانائی والے گروپ میں کوریا ، میکسیکو اور کم ہے۔ کم توانائی والے گروپس کو واضح طور پر چین اور ہندوستان میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ تاہم ، پہلے گروپ میں ، سوئٹزرلینڈ ، جاپان ، وغیرہ اعلی آمدنی والی درمیانے درجے کی توانائی میں تبدیل ہو رہے ہیں ، اور دوئبرووی تفریق کا رجحان پایا جاتا ہے۔ اگرچہ مستقبل میں دنیا کی معاشی ترقی کی رفتار کی پیش گوئی کی جائے گی ، لیکن یہ بات یقینی ہے کہ آمدنی کے بتدریج بڑھتے ہی توانائی کی طلب میں اضافہ ہوگا۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ جب بھی وسائل کی کمی کی راہ میں رکاوٹ آجائے تو یہ کسی بھی وقت کی بات ہے۔ تاہم ، جب دیوار سے ٹکرانے کا وقت اس بات پر کافی انحصار کرے گا کہ جنوبی کوریا اور مندرجہ ذیل ممالک کس ترقی کے راستے پر چلیں گے۔

1960 کی دہائی میں عالمی معیشت کی تیز رفتار نمو نے توانائی کی سخت فراہمی اور طلب کے سلسلے میں اس تاریخی پیش گوئی کو ایک حقیقی مسئلہ قرار دیا ہے۔ اس کا آغاز رومن کلب “نمو کی حد” (1972) کی رپورٹ سے ہوا۔ اس رپورٹ میں ، بہت سے وسائل کی مانگ ، جو صرف توانائی تک محدود نہیں ہے ، ہندسیاتی طور پر بڑھتی ہے ، جبکہ وسائل کی مقدار کی ایک مطلق حد ہوتی ہے۔ یہ تھا. اس مسئلے نے خاص طور پر توانائی کے وسائل میں بہت دلچسپی پیدا کی ، اور توانائی کے وسائل کے بارے میں شعور اجاگر کیا۔

توانائی کے وسائل کی مقدار

1980 کی عالمی توانائی کانفرنس نے ہر ملک کی اطلاعات کی بنیاد پر ہر طرح کی توانائی کی مقدار کو جمع کیا تاکہ مستقبل میں انسانی توانائی کے استعمال کے امکانات کا تعین کیا جاسکے۔

ٹیبل 2 توانائی کے وسائل کا ایک تخمینہ دکھاتا ہے جو اب تک بنیادی طور پر استعمال ہوتا رہا ہے۔ دراصل ، کسی ایک ادارے کے لئے دنیا کے ہر ملک میں وسائل کی مقدار کا سروے کرنا مشکل ہے ، لہذا ہر ملک کے سروے کے نتائج کو جمع کیا جائے گا۔ چونکہ یہاں کوئی بین الاقوامی معیار موجود نہیں ہے ، لہذا آج دستیاب وسائل کی مقدار سے متعلق تمام معلومات صرف ایک کھردری اشارے ہیں۔

اس طرح کی پابندیوں کے تحت ، عالمی توانائی کونسل کے کل نتائج ظاہر کرتے ہیں کہ دنیا میں روایتی توانائی کے وسائل کی مقدار 388188167.5 × 10 1 5 ہے جس میں تصدیق شدہ ذخائر اور تخمینہ اضافی وسائل بھی شامل ہیں۔ جے کا اندازہ لگایا گیا تھا۔ تیل کے لحاظ سے یہ تقریبا 9 کھرب کلو لیٹر ہے۔ چونکہ 1980 کی دہائی کے اوائل میں دنیا کی توانائی کی پیداوار ( کھپت) تقریبا 5 بلین کلو تیل کے برابر ہے ، اگر آپ مذکورہ وسائل کے صرف تخمینی ذخائر کو شامل کریں گے تو اس سے 180 سال تک تخمینہ اضافی وسائل میں اضافہ ہوجائے گا۔ ، 1800 سالوں میں 10 گنا زیادہ وسائل ہوں گے۔

ٹیبل 2 مذکورہ بالا تمام اشیا ہائڈرو پاور کے سوا تمام وسائل کا خاتمہ ہیں ، لہذا اس سے قطع نظر کہ ان کا کتنا بھی استعمال کیا جاتا ہے ، یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ آخر کار کھا جائیں گے ، لیکن وقت پھیلنے کی تصدیق ہوسکتی ہے۔ جب ذخائر اور تخمینی اضافی وسائل کو شامل کیا جاتا ہے تو ، خلا بہت وسیع ہوتا ہے اور “وسائل کی حد” کی اصطلاح کا معنی مختلف ہوتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں ، مذکورہ بالا مواد کافی نہیں ہے کہ یہ معلوم کرنے کے لئے کہ انسان کس قدر وسائل کی کمی کا بحران کر رہا ہے ، اور انفرادی توانائی کے وسائل کی مزید جانچ کی ضرورت ہے۔ .

پٹرولیم وسائل

عالمی توانائی کونسل کے ذریعہ مرتب کردہ تیل کے وسائل کی مقدار تین یہ مندرجہ ذیل ہے۔

پٹرولیم کے معاملے میں ، وسائل کی مقدار جو عام طور پر نقل کی جاتی ہے وہ مشاہدہ کرنے والے ذخائر ہیں ، تین یہ 89.1 بلین ٹن ہے۔ دوسری طرف ، سالانہ کان کنی (پیداوار کھپت) کی مقدار تقریبا 2.5 2.5 بلین ٹن ہے (1980 کی دہائی کے آغاز میں سطح) ، لہذا کٹائی کا سال تقریبا 47 47 سال ہے۔ عام طور پر ، اس فارمولے کے ذریعہ اظہار کیا جاتا ہے: قابل شناخت ذخائر ( R ) uction پیداوار ( P ) = سالوں کی تعداد جس کی کٹائی کی جاسکتی ہے ، لیکن یہ فارمولا صرف تیل تک محدود نہیں ہے۔ سب پر لاگو کیا جاسکتا ہے۔

تاہم ، اس طرح سے حاصل کیے جانے والے سال نام نہاد حاشیہ پختگی کی نشاندہی نہیں کرتے ہیں۔ چونکہ دریافت سرگرمیاں سال بہ سال جاری رہتی ہیں اور ریزروی کے نئے وسائل دریافت اور شامل کیے جاتے ہیں ، سالانہ تصدیق شدہ بازیافت ذخائر میں خاطر خواہ تبدیلی نہیں آتی ہے۔ تیل کے معاملے میں ، اس حقیقت کے باوجود کہ سال کے بعد ایک بڑی مقدار میں تیل استعمال ہوتا ہے ، مذکورہ بالا فصل قابل لگ بھگ 30 سال کے لگ بھگ مستحکم ہے ، اور یہی وجہ ہے کہ 90 کی دہائی میں یہ 40 سال سے تجاوز کرچکا ہے۔ ہاں (ٹیبل چار ).

وسائل کی درجہ بندی کا تصور

جب وسائل کی حدود یا دستیاب وسائل کی مجموعی مقدار پر غور کریں تو ، موجودہ نشاندہی کردہ وسائل کے علاوہ ، مستقبل میں جو وسائل دریافت اور شامل کیے جائیں گے اس پر بھی غور کرنا چاہئے۔

مؤخر الذکر ، جو یقینی طور پر کمتر ہے ، لیکن اس میں کافی حد تک درستگی موجود ہے ، عام طور پر تخمینے والے ذخائر ، متوقع ذخائر ، متوقع وسائل کی مقدار ، وغیرہ کہا جاتا ہے۔ تیل کے معاملے میں ، درج ذیل زمرے استعمال کیے جاتے ہیں: کیا گیا ہے۔ زمین کی موجودگی میں تیل (خام تیل) کی کل مقدار کو قدیم ذخائر کہا جاتا ہے ، اور یہ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ مناسب قدرتی حالات کے تحت مخصوص مقامات (تیل کے ذخائر ، تیل کے شعبوں) میں جمع ہوا ہے۔ قابل تصدیق ذخائر وہ ہیں جو اس ذخائر پر ایکسپلوریشن اور ٹرائل ڈرلنگ آپریشن کر کے کافی اعداد و شمار کی بنیاد پر معاشی طور پر نکلوانے کا عزم کر چکے ہیں۔

پراجیکٹ کو جاری رکھنے کے لئے یہ بازیافت ذخیرے ضروری اور کافی ہونے چاہئیں ، لیکن اگر اس سطح کو حاصل کرلیا جاتا ہے تو ، ریسرچ / ریسرچ اور دیگر کام اس سطح سے بہت زیادہ ہوجائیں گے۔ غیر حاضر. اس شعبے میں ضرورت سے زیادہ سرمایہ کاری کرنا معاشی طور پر مہنگا ہے۔ اس لحاظ سے ، وصولی کے ذخائر میں ایک اسٹاک جیسا ہی کردار ہے۔

دوسری طرف ، اگر طویل مدتی نقطہ نظر بنایا گیا ہے تو ، کسی حد تک تخمینہ لگا کر ریزرو وسائل کی مقدار کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے یہاں تک کہ اگر تصدیق کا کوئی کام اصل میں انجام نہیں دیا جاتا ہے۔ اس طرح ، وسائل کی تخمینی مقدار جو مستقبل میں دریافت کی جائے گی وسائل کی تخمینہ اضافی مقدار ہے۔ تخمینی اضافی وسائل کی رقم ، قابل شناخت ذخائر ، اور پہلے سے جمع کی گئی مجموعی پیداوار حتمی وسائل کی رقم ہے۔

یہاں تک کہ اگر پٹرولیم وسائل موجود ہیں ، تو وہ حصے جو موجودہ ٹیکنالوجی اور معاشی حالات کے تحت جمع نہیں ہوسکتے ہیں وہ زمین میں رہ گئے ہیں۔ موجودہ تجارتی تیل فیلڈ میں ، زمین پر پمپ کیے جانے والے تیل کی مقدار زیرزمین تیل کی کل مقدار کا تقریبا 1/3 تخمینہ لگایا جاتا ہے۔ اگرچہ اس تناسب کو بحالی کی شرح کہا جاتا ہے ، لیکن وصولی کی شرح تیل کے ذخائر میں دباؤ (ثانوی بحالی) کو بڑھانے کے لئے ، تیل کے ذخائر میں دہن کا سبب بننے اور ایندھن کے دباؤ سے زمین کو تیل انجیکشن کرنے کے لئے ہے۔ گیس متبادل کے طور پر ، انزال (تیسری بحالی) کو فروغ دینے کے لئے کیمیائی سالوینٹس لگا کر اس میں اضافہ کیا جاسکتا ہے۔ مستقبل میں ، اگر تکنیکی ترقی کی وجہ سے بازیابی کی شرح میں اضافہ ہوتا ہے تو ، بازیافت ذخائر کی تشخیص میں بھی اضافہ ہوگا۔

تکنیکی وسائل اور حتمی وسائل میں تبدیلی

جب طویل مدتی وسائل کی فراہمی کے امکان پر غور کیا جائے تو ، اس کے لئے نہ صرف پہلے سے شناخت شدہ وسائل کی مقدار ، بلکہ ان وسائل کی مقدار کو بھی مدنظر رکھنا ضروری ہے جو مستقبل میں ہونے والی کوششوں کے ذریعہ دریافت اور شامل کیے جانے کا امکان ہے۔ جب ایک طویل مدتی نقطہ نظر کو دیکھیں تو ، حتمی وسائل کی مقدار تصدیق شدہ ذخائر سے زیادہ اہم ہے۔ تاہم ، حتمی وسائل کی رقم خود تاریخی اعتبار سے بہت بڑھ چکی ہے۔

دوسری جنگ عظیم کے خاتمے تک ، تیل کے حتمی وسائل کا تخمینہ 1 کھرب بیرل تھا۔ سن 1960 کی دہائی کے وسط سے ، اب تک ، 2 کھرب بیرل کی تعداد کو زیادہ امید افزا سمجھا جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ریسرچ ٹکنالوجی نے ترقی کی ہے اور ایکسپلوریشن ایریا میں توسیع ہوگئی ہے۔ خاص طور پر ، دوسری جنگ عظیم کے اختتام پر مشرق وسطی میں سمندری سطح پر پٹرولیم وسائل کی ایک بڑی مقدار کی دریافت کی وجہ سے ذخائر میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ اس کے بعد سے ، نہ صرف مشرق وسطی میں بلکہ خلیج میکسیکو اور بحیرہ شمالی جیسے علاقوں میں بھی سب کے تیل کے شعبے دریافت ہوئے ہیں۔ یہ نتائج پانی میں سوراخ کرنے والے پائپوں کو کم کرنے ، سمندری پٹی سے تیل تلاش کرنے اور نکالنے کے ل a ایک تکنیک کی تکمیل کی وجہ سے کہا جاسکتا ہے ، اور اسی وقت ، اس بات پر ارضیات کی نشونما بھی کی جا رہی ہے کہ تیل زیرزمین کیسے جمع ہوتا ہے۔ جگہ بھی بڑی ہے۔ دوسرے لفظوں میں ، 1980 کی دہائی کے آغاز میں ، سمندری فرش سے پیدا ہونے والے تیل کی مقدار کی توقع کی جاتی ہے کہ وہ مجموعی پیداوار میں تقریبا 17 فیصد ہوں گے ، اور آئندہ یہ بڑھ کر 30 فیصد ہوجائیں گے۔ اس آبدوز کے تیل کے میدان میں ، یہ خیال کیا جاتا ہے کہ زمین اور ریت جو زمین سے سمندر کی سطح تک بہتی ہے سمندری پانی میں جمع ہوتی ہے اور اس میں نامیاتی مادے (پلاٹکٹن) موجود ہوتے ہیں ، اور یہ نامیاتی مادہ زمین میں گرمی اور دباؤ کی وجہ سے تیل میں تبدیل ہوچکے ہیں۔ . جی ہاں. یہ نسبتا shall اتھرا سمندر کا فرش (پانی کی گہرائی 200 سے 300 میٹر) براعظم شیلف ہے ، جو مستقبل میں تیل کی دریافت کا ایک پُرجوش علاقہ ہے۔ اس طرح ، پیٹرولیم وسائل کی تشخیص ٹکنالوجی اور ارضیات کی ترقی کی وجہ سے بہت تبدیل ہوئی ہے ، اور توانائی کے وسائل کے مستقبل پر غور کرتے وقت ، ٹیکنالوجی کی ترقی پر ہمیشہ غور کرنا ضروری ہے ، صرف تیل تک محدود نہیں۔ حقائق ظاہر کرتے ہیں۔

کوئلے کے وسائل

عالمی توانائی کونسل (1980) کے ذریعہ کوئلے کے وسائل کی مقدار کا تخمینہ 13 کھرب ٹن تصدیق شدہ وصولی ذخائر (ٹیبل) ہے پانچ ). یہ کانفرنس 1978 میں ہونے والے سروے سے 940 بلین ٹن زیادہ ہے۔ یہ اس کی عمدہ مثال ہے کہ معاشی حالات جیسے تبدیلیوں کی وجہ سے وسائل کی مقدار کا اندازہ کیسے بدلا جاتا ہے۔ کوئلے کے وسائل بھی یقین کے مطابق درجہ بند ہیں۔ ٹیبل پانچ <تصدیق شدہ ذخائر (کوئلے میں تصدیق شدہ ذخائر کے نام سے بھی جانا جاتا ہے)> وہی ہیں جن کا اندازہ کیا گیا ہے کہ موجودہ ٹیکنالوجی سے اسے نکالنے کے قابل ہو۔ بازیافت کا مطلب یہ ہے کہ اسے مندرجہ بالا شرائط کے تحت معاشی طور پر اکٹھا کیا جاسکتا ہے۔ اضافی وسائل کی مقدار کو کوئلے کے تمام وسائل سمجھا جاتا ہے جس کی توقع کی جاسکتی ہے۔ اس تعریف کی بنیاد پر ، 1،320 بلین ٹن کوئلے کے حساب سے گنے جاتے ہیں جو قابل اعتماد طور پر دیکھے جا سکتے ہیں۔ بقیہ (کل 90٪ سے زیادہ) پر اعتماد کی سطح کے ساتھ 50 فیصد یا اس سے کم اشارے درج کیے جاتے ہیں۔

کوئلہ کاربن ، ہائیڈروجن ، راھ ، اندرونی نمی ، گندھک وغیرہ کا مرکب ہے ، اور فی یونٹ کیلوری کی قیمت ساخت کے لحاظ سے مختلف ہوتی ہے ، اور کوئلے کا استعمال یا نام خصوصیات کے لحاظ سے مختلف ہوتا ہے۔ ورلڈ انرجی کونسل نے کوئلے کو پانچ قسموں میں درجہ بندی کیا: پیٹ ، لِگناٹ / لِگائناٹ ، سب بٹومائنس کوئلہ ، بٹومینس کوئلہ ، اور انتھراسائٹ۔ مؤخر الذکر کی حرارت کی قیمت میں اضافہ ہوتا ہے ، لیکن جب ان فرقوں کو کیلوریف ویلیو کے لحاظ سے متحد کیا جاتا ہے تو ، کوئلے کے وسائل کی مقدار بٹومینس کوئلے کے لحاظ سے تقریبا 11 11 کھرب ٹن ہوتی ہے۔

کوئلے کے وسائل کی یہ مقدار 2 جیسا کہ تصویر 4 میں دکھایا گیا ہے ، روایتی توانائی کے وسائل کا 90٪ حصہ ہے۔ پائیدار سال تیل اور قدرتی گیس سے کہیں زیادہ طویل ہیں ، لہذا یہ مستقبل کے توانائی کے وسائل کے طور پر بہت زیادہ توقع کی جاتی ہے۔ تاہم ، اس حد تک کہ اس کا جائزہ تیل کے متبادل کے طور پر لگایا جاسکتا ہے ، گرمی کی صورت میں اس کو نسبتا آسانی سے تبدیل کیا جاسکتا ہے (بجلی گھروں ، عام فیکٹریوں میں بوائیلر وغیرہ) ، لیکن اندرونی دہن انجنوں کے لئے جو اس میں شامل ہیں تیل کی اکثریت مائع ایندھن کو تبدیل کرنے کے ل coal ، کوئلے کو لیکویٹ کرنا اور اسے تیل کی طرح کا معیار بنانا ضروری ہے۔ دوسری کوئلہ جنگ کے بعد سے کوئلے لیکیفیکشن ٹیکنالوجی کو جزوی طور پر عملی استعمال میں لایا گیا ہے ، لیکن ابھی تک اس میں کافی حد تک پھیل نہیں پایا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ہم اس بات کا اندازہ نہیں کرسکے ہیں کہ کوئلے کے وسائل میں کتنا موجود ہے جس میں کوئلہ وسائل موجود ہیں۔ اس وجہ سے ، یہ ضروری ہے کہ استعمال کے مقصد کے مطابق پروسیسنگ اور تبادلوں کی ٹیکنالوجیز کی ترقی اور پختگی کے مطابق کوئلے کے وسائل کو استعمال کرنے کے امکان پر احتیاط سے غور کیا جائے۔

قدرتی گیس کے وسائل

قدرتی گیس بھی وسائل کے طور پر وافر ہے۔ عالمی توانائی کونسل (1980) کی تحقیقات میں ، دنیا کے قدرتی گیس کی وصولی کے ذخائر کی تصدیق 74.1 کھرب میٹر 3 ہے ، وسائل کی فیس 192 ٹریلین میٹر ہے ۔3 تیل کے معاملے میں ، وہ 66.7 بلین ٹن اور 172.8 ہیں ارب ٹن ، جو تیل سے زیادہ ہیں۔

قدرتی گیس ایک ہلکا ہائیڈرو کاربن ہے جس میں میتھین کا مواد تقریبا 50 50-100٪ ہوتا ہے۔ اس کی ابتداء تیل سے تشکیل پانے والوں ، کوئلے سے وابستہ اور آئل شیل سے وابستہ افراد سے مختلف ہے ، لیکن کسی قدرتی گیس کی تشکیل اور خصوصیات میں اس میں کوئی خاص فرق نہیں ہے۔

قدرتی گیس دوسری عالمی جنگ کے بعد دنیا میں بڑے پیمانے پر استعمال ہونے لگی ، اور اسی وجہ سے تلاش اور ترقی کی تاریخ مختصر ہے۔ اسی وجہ سے ، جیسے جیسے ریسرچ / ڈویلپمنٹ آگے بڑھ رہا ہے ، وسائل کی مقدار کی جانچ میں بڑی حد تک نظر ثانی کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ ، تیل پیدا کرنے والے بڑے ممالک جیسے نہ صرف ریاستہائے متحدہ امریکہ اور مشرق وسطی ، بلکہ سابقہ سوویت یونین اور آسٹریلیا میں بھی بڑے پیمانے پر تقسیم کی گئی ہے۔

چونکہ قدرتی گیس اکثر تیل کے ساتھ پھوٹتی ہے ، لہذا قدرتی گیس کے وسائل کا اندازہ لگانے کا ایک وعدہ مند طریقہ تیل کی پیداوار سے وابستہ ہے۔ خاص طور پر ، جب 1m 3 تیل پمپ کیا جاتا ہے تو قدرتی گیس کی بازیابی کا تناسب تیل / گیس تناسب کہلاتا ہے ، اور یہ قدرتی گیس کے ذخائر کا حساب لگانے کے لئے ایک اشارے کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ تیل اور گیس کا تناسب ایک خطے سے دوسرے خطے میں مختلف ہوتا ہے۔ قدرتی گیس کا کم سے کم 10 میٹر 3 ہے ہسپانوی تیل کا 1 میٹر 3 ، اور زیادہ سے زیادہ 450 میٹر 3 قدرتی گیس کا ہر 1 میٹر 3 نارویجن تیل میں ہے۔

قدرتی گیس کی صورت میں ، یہاں تک کہ اگر اس وسائل کی مقدار کو قدرتی گیس کے سالانہ استعمال کے ساتھ موازنہ کیا جائے ، تو اس کا فوری طور پر قدرتی گیس کے وسائل کی زندگی کا مطلب یہ نہیں ہے ، یعنی کتنے سال لگ سکتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں تک کہ اگر زمین پر قدرتی گیس بازیافت کی جائے تو بھی ، سبھی کو موثر انداز میں استعمال نہیں کیا جاتا ہے ، اور ایک اہم حص incہ کو آتش گیر یا دوسری شکلوں سے خارج کردیا جاتا ہے۔ در حقیقت ، زیادہ تر قدرتی گیس اسی براعظم کے اندر پائپ لائنوں میں منتقل اور استعمال کی جاتی ہے ، اور اس کو ٹھنڈا ، مائع (قدرتی گیس ، ایل این جی) اور سرشار ٹینکر کے ذریعہ سمندر میں منتقل کیا جاتا ہے۔ جاپان کے سوا کچھ مثالیں موجود ہیں۔ اس وجہ سے ، مشرق وسطی اور افریقہ میں گیس کے وسائل کو بے کار چھوڑ دیا گیا ہے اور توانائی کے وسائل کی حیثیت سے اس کا بڑا مارجن ہے جو مستقبل میں استعمال ہوسکتا ہے۔

چونکہ قدرتی گیس کوئلہ اور تیل کے مقابلے میں فی حرارت قیمت سے کم کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج کرتی ہے ، لہذا یہ توقع کی جارہی ہے کہ عالمی حرارت میں اضافے کو روکنے کے نقطہ نظر سے مستقبل میں طلب میں اضافہ ہوگا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *