Free AIOU Solved Assignment Code 5625 Spring 2024

Free AIOU Solved Assignment Code 5625 Spring 2024

Download Aiou solved assignment 2024 free autumn/spring, aiou updates solved assignments. Get free AIOU All Level Assignment from aiousolvedassignment.

                 کورس: اصول صحافت (5625)
 سمسٹر بہار 2024

                                                               سوال نمبر 1: کیا پروپیگنڈا ایک جنگی ہتھیار ہے نیز پروپیگنڈا کی مختلف صورتیں بیان کریں؟                   

    پروپیگنڈہ‘ امن و جنگ دونوں صورتوں میں استعمال ہونیوالا ہتھیا

تیر و تلوار کی جگہ بندوق و ٹینک اور منجنیق کی جگہ جدید جنگی طیاروں اور میزائلوں نے لے لی۔ جنگ لڑنے کے اوزار و ہتھیار ہی تبدیل نہیں ہوئے دیگر امور بھی تبدیل ہو گئے لیکن پروپیگنڈہ ایک ایسا کارگر ہتھیار ہے جو تمام تر ترقیوں کے باوجود آج بھی موثر ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ پہلے اسے زبانی کلامی استعمال کیا جاتا تھا جس کے اثرات مہینوں تو کبھی سالوں میں ظاہر ہوتے۔ تاہم مواصلاتی ترقی نے پروپیگنڈے کی تیز رفتاری ہی میں اضافہ نہیں کیا اس کی قوت کو بھی دو چند کر دیا ہے۔ اور پاکستان ایک ایسا ملک ہے جس کیخلاف پروپیگنڈے کا ہتھیار نصف صدی سے استعمال ہو رہا ہے۔

                                                      حیران کن بات یہ ہے کہ ہم پاکستانی اس حقیقت سے آگاہ ہونے کے باوجود کہ پاکستان کا ازلی دشمن بھارت اسے پاکستان کےخلاف استعمال کرنے کیلئے کوئی موقع ضائع نہیں کرتا۔ اس کا توڑ کرنے کےلئے ہماری کوششیں صفر نظر آتی ہیں۔ پاکستان کی معاشی بقا کےلئے ضروری کالا باغ ڈیم بھارت نواز عناصر کی کوششوں سے خواب بن کر رہ گیا۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی جس کے بارے میں اب بنگلہ دیشی بھی تسلیم کرتے ہیں کہ 1971 ءکی جنگ ایک بہت بڑی سازش تھی۔ بھارتی پروپیگنڈے نے مشرقی پاکستان کے عوام کو مغربی پاکستان سے متنفر کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔

                                               بھارت نے پہلے یہ کھیل مشرقی پاکستان میں کھیلا اور اب بلوچستان میں کھیل رہا ہے۔ لیکن ہم بھارت کو پاکستان کا دشمن تسلیم کرنے کو تیار ہی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت دھڑلے کے ساتھ براستہ افغانستان پاکستان میں مسلح مداخلت کا سلسلہ برقرار رکھے ہوئے ہے۔دہشت گردی کے حوالے سے پاکستان کو بدنام کرنے کا آغاز بھارت نے 1984 ءمیں پاکستان پر اسلامی بم بنانے کا الزام لگانے کے ساتھ ہی کر دیا تھا۔ مئی 1974 ءمیں بھارت نے پہلا ایٹمی دھماکہ کیا تو یہ جانتے ہوئے کہ اس کا استعمال جب کبھی بھی ہوا تو پاکستان اس کا نشانہ ہو گا کیونکہ قبل ازیں بھارت تین بار پاکستان کے خلاف جارحیت کا مرتکب ہو چکا تھا۔ اسکے باوجود پاکستان نے بھارتی ایٹم بم کو ہندو بم کا نام کبھی نہیں دیا جبکہ بھارتی حکومت میڈیا اور دانشور پاکستان کے ایٹمی اسلحہ سے متعلق ایک ہی پروپیگنڈہ کرتے رہے کہ پاکستان کی ایٹمی قوت مہذب دنیا کیلئے خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔ پاکستان پر مذہبی انتہا پسندی کو فروغ دینے دہشت گردوں کو بطور جنگی حکمت عملی ہمسایہ ممالک کےخلاف استعمال کرنے اور پاکستان کا ایٹمی اسلحہ انتہا پسند مسلمانوں کے ہاتھ لگنے کا پروپیگنڈہ انتہائی مربوط اور منظم انداز سے کیا گیا اسکے زیر اثر مغربی ممالک کے سینکڑوں تھنک ٹینک دن رات پاکستانی ایٹمی اثاثوں پر شب خون مارنے‘ اسے عالمی کنٹرول میں لینے کی پالیسیاں مرتب کرنے میں جت گئیں۔ امریکی کانگرس کی دفاعی کمیٹی میں متعدد بار اس آپشن پر غور ہوا کہ ضرورت پڑنے پر امریکی کمانڈوز کب اور کس طرح پاکستان کے ان مقامات کا کنٹرول حاصل کرینگے جہاں پاکستانی ایٹمی اسلحہ کی موجودگی ممکن ہو سکتی ہے۔ اور اس آپریشن کیخلاف ممکنہ پاکستانی ردعمل اور مزاحمت کا معیار کیا ہو گا۔

                                                     گو دنیا کی کسی قوت کو اپنے ان ارادوں کو عملی جامہ پہنانے کی جرا¿ت نہیں ہوئی کیونکہ امریکی جانتے تھے کہ اسکے اثرات انتہائی تباہ کن ہونگے۔ البتہ دہشت گردی کے حوالے سے پاکستان کو بدنام کرنے کا سلسلہ ضروری جاری رکھا گیا۔دنیا میں دہشت گردی کی کہیں کوئی بھی واردات ہوتی اسکی جڑیں پاکستان میں تلاش کرنے اور دہشت گردوں کے پاکستان میں انتہا پسندوں سے رابطے تلاش کر کے پاکستان سے متعلق عالمی رائے عامہ پر اثرانداز ہونے کی کوشش کی جاتی۔ اب جبکہ پاک فوج کی طرف سے شمالی وزیرستان و دیگر قبائلی ایجنسیوں میں دہشت گردوں کیخلاف جاری آپریشن کے ذریعے ان کے تمام خفیہ ٹھکانے تباہ کر دیئے گئے ہیں اور یہ بھی ثابت ہو چکا ہے کہ پاکستان میں 2002 ءسے جاری دہشت گردی اور پاکستان کے دشوار گزار قبائلی علاقوں میں چھپے دہشت گردوں کو بھارتی حمایت و مدد حاصل تھی اور بھارت ہی ان دہشت گردوں کو افغانستان سے کنٹرول کرتا تھا۔ اسکے باوجود کبھی شام و عراق میں لڑنے والے انتہا پسندوں یا حکومت کیخلاف برسرپیکار افراد کا تعلق پاکستان سے بتا کر پاکستان میں مسلکی اختلاف پیدا کرنے کی کوششیں ہوئیں اور اب حوثیوں کو شمالی وزیرستان میں روابط کی خبریں آرہی ہیں جو کہ حیران کن ہیں۔ خاص طور پر پاکستان کی پارلیمنٹ میں سعودی عرب فوج بھیجنے کے حوالے سے منظور کی گئی قرارداد اور اس کے نتیجے میں پاک سعودی تعلقات میں پیدا ہونے والی غلط فہمیوں کے بعد جس طرح کی صورتحال بنی بعد ازاں وزیراعظم نوازشریف اور پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل نے سعودی عرب جا کر جس انداز سے غلط فہمیوں کا ازالہ کیا اس کے بعد اس طرح کی خبریں پاکستان میں ایک نئی بحث کے آغاز کا سبب بن سکتی ہیں جو پاکستان کے داخلی حالات کے حوالے سے مناسب نہیں۔ دو برادر اسلامی ممالک کے ”پراکسی وار“ کی پاکستان پہلے ہی کافی قیمت ادا کر چکا ہے جس کا پاکستان مزید متحمل نہیں ہو سکتا۔ سوشل میڈیا پر اس حوالے سے جس طرح کے تبصرے و تجزیے جاری ہیں اسکے پیچھے ایک خاص ذہن کار فرما ہے جوپاک سعودی تعلقات پر خوش نہیں۔ بھارتی شہر چنائی میں Raw نے پاکستان کے خلاف پروپیگنڈہ مہم کے لئے ایک مکمل ادارہ قائم کر رکھا ہے جس میں آئی ٹی انجینئروں کو خصوصی طور پر تعینات کیا گیا ان کا کام جعلی شناخت و نام کے ساتھ ٹیوٹر اکانٹ‘ ای میل و فیس بک اکانٹس بنا کر پاکستان کےخلاف پروپیگنڈہ پر مبنی خبروں کو پھیلانا‘ ان پر تبصرے کرنا ہے۔ اس ادارے سے بھارت کے نامی گرامی دانشور قلمی ناموں کے ساتھ مغربی پرنٹ میڈیا کےلئے جنوبی ایشیا سے متعلق مضامین بھی لکھتے ہیں۔ ان میں پاکستان کو ابھی تک انتہا پسند ملک کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ مذکورہ مضامین شائع ہونے کے بعد ان پر بعض پاکستانی دانشوروں سے تجزیے لکھوائے جاتے ہیں جو پاکستان میں شائع نہیں ہوتے۔ تاہم مغربی اخبارات کی ویب سائٹ پر پاکستان کے خلاف لکھے گئے مضامین کے ساتھ شامل کر دئے جاتے ہیں۔ جس کو دیکھتے ہوئے ہمیں یمنی حوثیوں کے پاکستان میں روابط کے حوالے سے پاکستان

     مخالف پروپیگنڈہ مہم سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔

“پروپیگنڈا تمام لوگوں پر ایک نظرئیے کو مسلط کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔۔۔ پروپیگنڈا عام لوگوں پر ایک خیال کی حیثیت سے اثرانداز ہوتا ہے اور پھر اِس خیال کی فتح کیلئے اُنہیں تیار کرتا ہے”۔ یہ الفاظ ایڈولف ہٹلر نے اپنی کتاب مین کیمپف (1926) میں لکھے تھے جس میں اُس نے پہلے قومی سوشلزم کے تصورات کو پھیلانے کیلئے پروپیگنڈے کے استعمال کی وکالت کی جس میں نسلی امتیاز، سام دشمنی اور بالشویکی تحریک کی مخالفت شامل ہے۔

1933                                          میں نازیوں کے برسر اقتدار آنے کے بعد ہٹلر نے عوامی روشن خیالی اور پروپیگنڈے کی ریخ وزارت قائم کی جس کا سربراہ جوزف گیبیلز تھا۔ وزارت کا مقصد اِس بات کو یقینی بنانا تھا کہ آرٹ، موسیقی، تھیٹر، فلموں، کتابوں، ریڈیو، تعلیمی مواد اور ذرائع ابلاغ کے ذریعے نازی پیغام کو کامیابی کے ساتھ فروغ دیا جائے۔

                                             نازی پروگینڈے کی رسائی کئی طرح کے لوگوں کیلئے تھی۔ جرمنوں کو غیر ملکی دشمنوں اور یہودی بغاوت کے خلاف جدوجہد سے روشناس کرایا گیا۔ یہودیوں کے خلاف قانون سازی یا سرکاری اقدامات سے پہلے کے زمانے میں پروپیگندا مہموں سے ایسا ماحول تیار گیا جس میں یہودیوں کے خلاف تشدد کو برداشت کیا جائے خاص طور پر 1935 (ستمبر کے نیورم برگ نسلی قوانین سے پہلے) اور 1938 (کرسٹل ناخٹ کے بعد سام دشمنی پر مبنی اقتصادی قانون سازی سے پہلے)۔ پروپیگندا غیر فعالیت اور یہودیوں کے خلاف ہونے والے ایسے اقدامات کو تسلیم کرنے کی ترغیب دیتا تھا جن سے بظاہر یہ تاثر دیا جاتا کہ نازی حکومت اقدامات کرتے ہوئے “نظم و نسق کی بحالی” کی کوشش کر رہی ہے۔

                                                   پہلی جنگ عظیم کے بعد جرمنی کی ایماء پر چیکوسلواکیہ اور پولینڈ جیسے مشرقی یورپ کے جن ممالک نے مزید علاقے ہتھیا لئے تھے اُن میں نسلی جرمنوں کے خلاف حقیقی یا پھر تصوراتی امتیاز ہی نازی پروپیگنڈے کا موضوع تھا۔ اِس پروپیگنڈے کے ذریعے جرمن نسلی آبادی کی طرف سے سیاسی وفاداری اور نسلی احساس کو اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی۔ اِس نے یورپ کی بڑی قوتوں سمیت بیرونی ممالک کی حکومتوں کو بھی یہ غلط تاثر دینے کی کوشش کی کہ نازی جرمنی دیگر ممالک سے رعایتوں اور اُن کے علاقوں پر قبضے سے متعلق قابل فہم اور منصفانہ مطالبات کر رہا ہے۔

                                                        جرمنی کے سوویت یونین پر حملے بعد جرمن پروپیگنڈے نے اندرون ملک سویلین افراد اور فوجیوں، پولیس افسروں اور مقبوضہ علاقوں میں متعین غیر جرمن ذیلی فوجیوں پر ایسے تاثر کو تھوپنے کی کوشش کی کہ جس میں سوویت اشتراکیت کو یورپ کے یہودیوں کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کی گئی اور ایسا کرتے ہوئے جرمنی کو یہودی بورژوائی خطرے کے خلاف “مغربی” ثقافت کا دفاع کرنے والے کی حیثیت سے پیش کیا گیا اور سوویت یونین کی طرف سے جنگ جیت جانے کی صورت میں ایک خوفناک تصویر پیش کرنے کی کوشش کی گئی۔ یہ اقدام اُس وقت زیادہ شدت سے سامنے آیا جب جرمنی کو فروری 1943 میں اسٹالن گراڈ میں شکست ہو گئی۔ یہ پروپیگنڈا نازیوں اور غیر نازی جرمنوں کے ساتھ ساتھ مقامی حامیوں کو آخری وقت تک لڑتے رہنے کیلئے ترغیب دینے میں شاید سودمند رہا ہو گا۔

                                                                     فلموں نے نسلی بنیادوں پر سام دشمنی، جرمن فوجی طاقت کی برتری اور نازی نصب العین کے تحت واضع کی جانے والی دشمنوں کی مخفی برائی کو اجاگر کرنے میں خاص طور پر اہم کردار ادا کیا۔ نازی فملوں میں یہودیوں کو “گھٹیا انسانی” مخلوق کے طور پر پیش کیا گیا جو آرین سوسائٹی میں در آیا تھا۔ مثال کے طور پر فرٹز ہپلر کی ڈائریکشن میں بننے والی فلم “دی ایٹرنل جیو” (1940 ) میں یہودیوں کو ایسی ثقافتی جونکوں سے تعبیر کیا گیا جو جنسیت اور روپے پیسے کی لت میں مبتلاء تھے۔ لینی رائے فینسٹاہل کی فلم “دی ٹرائمف آف دی ول” (1935) جیسی کچھ فلموں میں ہٹلر اور قومی سوشلسٹ تحریک کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا۔ رائے فینسٹاہل کی دو دیگر فملوں “فیسٹول آف دا نیشنز” اور “فیسٹول آف بیوٹی” (1938 ) میں 1936 کے برلن اولمپک کھیل دکھائے گئے اور اِن اولمپک کھیلوں کے دوران نازی حکومت کی کامیابیوں کے حوالے سے قومی عظمت کو اجاگر کیا گیا۔

                                                        جرمنی کے اخبارات خاص طور پر دئر شٹرمر (حملہ آور) نے ایسے کارٹون شائع کئے جن میں یہودیوں کو دکھانے کیلئے سام دشمنی پر مبنی مسخ شدہ خاکے شامل کئے گئے۔ ستمبر 1939 میں جرمنوں کی طرف سے پولینڈ پر حملے کے ساتھ دوسری عالمی جنگ شروع کرنے کے بعد نازی حکومت نے جرمن شہریوں اور فوجیوں کو یہ باور کرانے کیلئے پراپیگنڈے کا استعمال کیا کہ یہودی نہ صرف گھٹیا انسان ہیں بلکہ جرمن ریخ کیلئے خطرناک دشمن بھی ہیں۔ نازی حکومت نے جرمن بستیوں میں سے یہودیوں کو مستقل طور پر نکالنے کیلئے حمایت یا پھر خاموش تائید حاصل کرنے کی کوشش کی۔

                                                          نام نہاد حتمی حل پر عمل درآمد یعنی یورپی یہودیوں کے قتل عام کے دوران قتل گاہوں میں ایس۔ ایس اہلکاروں نے ہالوکاسٹ کے شکار افراد کو مجبور کیا کہ وہ جرمنی اور مقبوضہ یورپ سے یہودیوں کو ممکن حد تک سہولت کے ساتھ جلا وطن کرنے کے عمل کو لازمی طور پر مخفی رکھیں۔ حراستی کیمپ اور قتل گاہ کے اہکار قیدیوں پر دباؤ ڈالتے کہ وہ اپنے گھروں کو ایسے پوسٹ کارڈ روانہ کریں جن میں وہ کہیں کہ اُن کے ساتھ بہترین سلوک کیا جا رہا ہے اور وہ نہایت شاندار ماحول میں رہ رہے ہیں اگرچہ ان میں سے اکثر کو جلد ہی گیس چیمبرز میں ہلاک کر دیا جانا تھا۔ یوں کیمپ حکام نے اپنے ظلم و ستم اور قتل عام کے اقدامات کو چھپانے کیلئے پروپیگنڈے کا سہارا لیا۔

                                                    جون 1944 میں جرمن سیکورٹی پولیس نے بین الاقوامی ریڈ کراس کی ٹیم کو تھیریسئن شٹٹ کیمپ گھیٹو کے معائنے کی اجازت دے دی جو بوہیمیا اور موراویہ کے پروٹیکٹوریٹ میں واقع تھا۔ (یہ علاقہ اب جمہوریہ چیک کہلاتا ہے)۔ ایس۔ ایس اور پولیس نے تھیریسئن شٹٹ نومبر 1941 میں قائم کیا تھا جس کا مقصد جرمن ریخ میں داخلی طور پر پروپیگنڈے کیلئے اسے استعمال کرنا تھا۔ کیمپ گھیٹو کو جرمن شہریوں کو مطمئن کرنے کیلئے قائم کیا گیا تھا جو اِس بات پر حیرت کا شکار تھے کہ جنگ میں حصہ لیتے ہوئے جسمانی طور پر معزور ہونے والے یا مقامی طور پر معروف فنکاروں اور موسیقاروں سمیت زیادہ عمر کے جرمن اور آسٹرئن یہودیوں کو جلاوطن کر کے “مشرق کی جانب” “جبری مشقت” کیلئے کیوں بھجا جا رہا ہے۔ 1944 کے اِس دورے کی تیاری میں گھیٹو میں “آرائش و زیبائش” کے ایک پروگرام کے تحت اسے سجایا گیا۔ معائنے کے تناظر میں پروٹیکٹوریٹ میں ایس۔ ایس اہلکاروں نے ایک فلم تیار کی جس میں گھیٹو کے رہائشیوں کو استعمال کرتے ہوئے یہ دکھانے کی کوشش کی گئی کہ تھیریسئن شٹٹ کے یہودی “رہائشیوں” کے ساتھ فرضی طور پر کس قدر فراخدلی کا سلوک کیا جاتا ہے۔ جب فلم تیار ہو گئی تو ایس۔ ایس اہلکاروں نے اِس فلم کی “کاسٹ” کے بیشتر لوگوں کو آشوٹز۔ برکیناؤ قتل گاہ روانہ کر دیا۔

                                                      نازی حکومت نے جنگیں جیتنے کے سلسلے میں جرمن عوام کی تائید و حمایت کے حصول کی خاطر اپنی حکومت کے آخر تک پروپیگنڈے کا مؤثر استعمال کیا۔ اسی طرح یورپین یہودیوں اور نازی حکومت کے شکار دیگر افراد کے قتل عام پر معمور افراد کا حوصلہ بڑھانے کیلئے بھی یہ پروپیگنڈا بہت ضروری تھا۔ اسے نسلی طور پر ہدف بنا کر ہراساں کرنے اور قتل عام کے اقدامات کے سلسلے میں تمائشایوں کی حیثیت سے لاکھوں دیگر افراد کی تائید حاصل کرنے کی خاطر بھی استعمال کیا گیا۔

AIOU Solved Assignment Code 5625 Spring 2024

سوال نمبر 2: انٹرویو سے کیا مراد ہے؟ نیز انٹرویو کے اہتمام کے اصول واضح کریں۔                             

انٹرویو کی تعریف

انٹرویو کا لفظی مطلب خیالات آراء اور نقطہ نظر کا تبادلہ کرنا ہے۔ یہ تقریباً تمام امتحانات اور ملازمتوں کے لیے مشترک ہوتے ہیںَ

انٹرویو کی بہت سی اقسام ہیں جو تخمینی انٹرویو مشاورتی انٹرویو‘ شکایت کا انٹرویو‘ بیرون ملک ملازمت کا انٹرویو معلومات جمع کرنے کا انٹرویو‘ سیاسی انٹرویو اور ادبی انٹرویو وغیرہ ہوتی ہیں۔ انٹرویو کا بنیادی مقصدامیدوا ر کی صلاحیت قابلیت ذہنی میلان اظہار کے طریقہ کاراور گفتگو کے اسلوب کا جائز ہ لے کر حتمی رائے قائم کرتاہوں۔

چونکہ محکمے اورادارے قابل اور باصلاحیت امیدواروں کے چنئو کے لیے اپنے صوابدیدی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے امیدوار کا حتمی چنائو کرتے ہیں اس لیے انٹرویو نگ کے بنیادی اصول ان تمام اقسام کے لیے یکساں ہوتے ہیں۔

انٹرویو کی اقسام

              انٹرویو کی متعدد اقسام ہیں جن کی تکنیک اور ساخت کے مطابق درجہ بندی کی جاسکتی ہے ۔ انٹرویو کی اہم اقسام درج ذیل ہیں:

٭  منصوبہ بند انٹرویو

٭  وضع کردہ انٹرویو

٭  تاکیدی انٹرویو

٭ پینل انٹرویو

منصوبہ بند انٹرویو

                          منصوبہ بند انٹرویو میں انٹرویو لینے والا پہلے ہی سے موضوعاتی میدانوں کا خاکہ تیار کرتا ہے۔ اس طریقہ میں انٹرویو لیینے والا جو ابات تحریری طور پر ریکارڈ کرے گا۔ کہنہ مشق انٹرویو لینے والا اپنے تجربے کی بدولت امیدوار کے تمام رجحانات اور ذہنی معلومات کو جان لیتا ہے وہ جن مضامین پرغور کرتاہے ان میں گھریلو زندگی تعلیم سابقہ کام کا تجربہ سماجی تسویہ رویے اور تفریحی دلچسپیاں شامل ہیں۔ جن کا مقصد امیدوار کے ساتھ خوش دلی اور آزادی کے ساتھ کھل کر بات چیت کرنا ہوتاہے۔ ایسا انٹرویو لینے والا مکمل جائز ہ لے کرامیدوار کی ملازمت کے سلسلہ میں کامیابی یا ناکامی کی نشاندہی کرتا ہے۔

                          ایسے انٹرویو میں امیدوار کو تنظیم؍ ادارے کے کام کی نوعیت تنخواہ ترقی کے مواقع او ر ملازمین پر عائد شرائط کے بارے میں معلومات مہیا کی جا سکتی ہیں۔

وضع کردہ انٹرویو

ایسے انٹرویوز کو کہت ہین جو انتہائی جامع سوالنامہ کی بنیادوں پر کیا جاتاہے۔ اس انٹرویو کی مدد سے جواز مطالعات نے اچھے نتائج حاصل کیے ہیںَ انٹرویو ؤؤوالے کی بہت زیادہ احتیاطی تربیت اور ٹھوس انتخابی طریق کار امیدوار کی اہلیت اور نا اہلیت کا فیصلہ کرنے میں خاطر خواہ مدد فراہم کرتے ہیں۔

تاکیدی انٹرویو

                                   تاکیدی انٹرویوو کا طریقہ کار دوسری جنگ عظیم کے دوران خفیہ عاملوں کے انتخاب کے لیے امریکی حکومت نے وضع کیا۔ اس میں انٹرویو لینے والا دشمن کے کردار کو فرض کر کے انہیں مدافعت کرنے اور دانستہ طور پر تنگ کرنے پریشان کرنے اور مایوس کرنے کے لیے انٹرویو کرتے ہیں بعض اوقات امیدوار پر غصہ جھاڑ  کر اسے مشکل میں ڈال دیا جاتا ہے۔

                                 تاکیدی انٹرویو کا مقصد ان لوگوں کی تلاش ہے جو اپنے رویے پر قابوپانے کے اہل ہوں خواہ انہیں جان بوجھ کر جذباتی کر دیا جائے۔ اس طریقہ انٹرویو کو بہت زیادہ تربیت یافتہ شخص استعمال کر سکتا ہے۔

پینل انٹرویو

                      پینل انٹریو میں تین بار یا اس سے زائد افراد انٹرویو لیتے ہیںَ پینل طریق کار کو عموماً سرکاری دائرہ اختیار میں استعمال کیا جاتا ہے۔ پینل تکنیک درخوات دہندگان کی زیادہ کی زیادہ جامع تحقیق کرنے انفرادی کارکردگی کی وضاحت کو بآسانی ممکن بناتا ہے۔ قیاس کے طورپر انٹرویو لینے والے کے تاثرات اور میلان کو کھلے عام زیر بحث لایا جا سکتا ہے۔

انٹرویو کے مقاصد

                        انتخابی انٹرویو کے مقاصد تین درجات میں منقسم ہیں۔

1۔  انٹرویو لینے والا امیدوار کے ارادوں کے بار ے میں علم حاصل کرکے اس کے تنظیم؍ ادارے کی ملازمت اور خاص ملازمت کے لیے موزوں ہونے کا تعین کر سکتاہے۔

2۔  جس طرح آجر اپنے ادارے کے استحکام اور ترقی کے لیے ایک ملازم کو منتخب کرتا ہے بلکہ اسی طرح امیدوار ملازمت کے متلاشی آجر کا انتخاب کرتا ہے۔ جو اپنی ضرورت کو مدنظر رکھتیہوئے بہت سے لوگوں کو مسترد کرتا ہے ایک انٹرویو کا ایک مقصد ادارہ ملازمت اور لوگوں کے بارے میں معلومات مہیا کرتا ہے۔

3۔  تیسرا مقصد انٹرویو لینے والا امیدوار کے ساتھ اس انداز میں مقابلہ کرنا ہے جیسا کہ کمپنی بہتر ماحول کے لیے خیر سگالی کے جذبات پیدا کرتی ہے۔

غیر قانونی سوالات

 

ایسے سوالات جن کے جوابوں کی ضرورت نہ ہو تو غیر قانونی کہلاتے ہیں۔ اور ایسے سوالات انٹرویو لینے والے کو پوچھنے نہیں چاہیے تاہم کبھی کبھار انڑیور اس طرح کے چند سوالات پوچھ سکتا ہے۔

اب یہ امیدوار کا فرض ہے کہ وہ یہ اندازہ لگائے کہ یہ سوال کا جواب دینے کے قابل بھی ہے یا نہیں۔ امیدوار کو ہرگز ایسا نہیں کہنا چاہیے کہ سوال ناجائز؍ غیر قانونی ہے۔ اس قسم کے سوالات کچھ ایسے ہوتے ہیں۔

٭  آپ کی عمر کیا ہے؟

٭  کیا آپ شادی شدہ ہیں یا منگنی ہوئی ہے؟

٭  آ پ کا وزن کتنا ہے؟

٭  آپ کے ساتھ کون رہتا ہے؟

٭  آ پ کے بچے کتنے بڑے ہیں؟

٭  کیاآپ نے بچے زیادہ پیدا کرنے کی منصوبہ بندی کی ہے؟

٭  جب آپ کام پر ہوں تو بچوں کی حفاظت کون کرے گا؟

AIOU Solved Assignment 1 Code 5625 Spring 2024

سوال نمبر 3: صحافتی ضابط اخلاق کیوں ضروری ہے؟ کارکن صحافیوں کا ضابط اخلاق بیان کریں؟

صحافیوں کا ضابطہ اخلاق

جس ”اے پی این ایس“ کے سپرد صحافیوں کا ضابطہ اخلاق مرتب کرنے کی ذمہ داری کی گئی ہے،

                                                                                             پاکستان کے صحافتی اداروں کے مالکان کی اس تنظیم کی عمر بھی تقریباً پاکستان جتنی ہی ہے لیکن 67 سال گزر جانے کے بعد بھی اگر یہ کہنا پڑے کہ صحافیوں کا کوئی ضابطہ اخلاق بنایا یا طے کیا جائے تو یہ اندازہ لگانا کوئی زیادہ مشکل نہیں ہے کہ سات دہائیوں کے بعدبھی ضابطہ اخلاق پر عملدرآمد ممکن ہوسکے گا جبکہ 1950ءمیں بنائی گئی ”اے پی این ایس“ کی سربراہی حمید نظامی، میر خلیل الرحمن، حمید اے ہارون، الطاف حسین، قاضی محمداکبر اور سید حمید حسین نقوی ایسے صحافی اور اخباری مالکان کرتے رہے ہیں، لیکن ان جیسے جید اصحاب کی سربراہی کے باوجود صحافیوں کا ضابطہ اخلاق کاغذوں کی حد تک ہی رہا اور عجلت تک کوئی بات ماضی میں تھی بھی تو جاری زمانے کے کارپوریٹ کلچر نے صحافت سے رہی سہی تمیز بھی، چھین کر کمرشل ازم کی ”ڈگڈگی“ اس کے ہاتھ میں تھما دی ہے، ان حالات میں کیا اس بات کی امید کی جا سکتی ہے کہ ”اے پی این ایس“ جو کلی طور پر میڈیا مالکان کی ایک تنظیم ہے وہ صحافیوں کا کوئی ضابطہ اخلاق مرتب کرنے کی سعی کرے گی جبکہ ان کو اس بات کا بھی یقین ہو کہ اس میںان کیلئے کوئی منافع بخش سودا نہیں بلکہ چند نکات اگر حکومت کی طرف سے نافذکر دیئے گئے تو ان کے کمرشل ازم کو شدید زد پہنچنے کا خطرہ ہے، چنانچہ امیدکامل یہی رکھنی چاہیے کہ اس معاملے میں ڈھاک کے دوپات، رہیں گے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ضابطہ اخلاق کی حالت بدتر ہوئی چلی جائے گی کہ اب تو الیکٹرانک میڈیا کا تڑکہ بھی لگ چکا ہے اور پھر کون نہیں جانتا کہ جس ملک کے 84% عوام کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں،غریب عوام ہسپتالوں کے گندے فرشوں پر ایڑھیاں رگڑ کر مر رہے ہوں، بھوک و غربت کے ہاتھوں خودکشیاں اور اپنے بچوں کو بیچ رہے ہوں۔ اس ملک کی فقط وفاقی حکومت گزشتہ صرف چار سال کے دوران میڈیا کو آٹھ سو کروڑ روپے کے اشتہارات دے چکی ہو، صوبائی حکومتیں اس کے علاوہ ہیں

 چنانچہ ان حالات میں کوئی میڈیا سے کہے کہ ضابطہ اخلاق بناﺅ اور وہ بھی خود
اگلے روز پیمرا کے چیئرمین ابصار عالم جو بذات خود ایک معروف صحافی ہیں نے حکومت کو دہائی دی ہے کہ انہیں اور ان کے دیگر سٹاف کو جان کا خطرہ ہے، انہیں تحفظ فراہم کیا جائے۔ پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی جس کا کام الیکٹرانک میڈیا کو اخلاقی و سماجی حدود و قیود کے اندر رکھنا ہے چنانچہ اگر اس اتھارٹی کا چیئرمین حکومت سے یہ کہے کہ اسے دھمکیاں مل رہی ہیں اور اگر حکومت اسے مکمل اختیارات نہیں دے سکتی تو اس ادارے کو بندکر دیا جائے۔ گو کہ ابصار عالم کے مطابق انہیں اوران کے سٹاف کو یہ دھمکیاں نامعلوم افراد کی طرف سے دی جا رہی ہیں لیکن اس کے باوجود ابصار سمیت ”نظر“ رکھنے والے لوگ جانتے ہیں کہ انہیں یہ دھمکیاں کہاں سے اور کون کون دے رہا ہے۔

                                                                انہوں نے یہ بھی کہا کہ پیمرا کی اتھارٹی بحیثیت چیئرمین بظاہرتو میرے پاس ہے لیکن عملاً یہ اتھارٹی ہائیکورٹس کے پاس ہے ۔ اس لئے میڈیا کو دیئے گئے ہمارے ہر نوٹس پر عدالت شوکاز ایشو کردیتی ہے تو ایسی صورت میں ہماری اتھارٹی کدھر گئی؟ حالانکہ پیمرا ایک آزاد اور آئنیی وفاقی ادارہ ہے۔ پندرہ سال پہلے جب اس کا وجود عمل میں لایا گیا تو اس کی ذمہ داریوں میں الیکٹرانک میڈیاکے لائسنس جاری اور چینلز پر براڈکاسٹ ہونے والے مواد کی چھان بین کرنا تھا۔ درست ہے کہ پیمرا قدرے نیا ادارہ ہے کہ پندرہ سال میں اس کا مشاہدہ و تجربہ اس قدر عمیق نہیں ہو سکتا۔ جس قدر اخباری صنعت کی ریگولیٹری اتھارٹیز کو ہوسکتا ہے۔ اس لیے انہیں بھی میڈیا کے ضابطہ اخلاق کے نہ ہونے کی شکایت رہے گی اور اگر وہ باریک بینی سے الیکٹرانک میڈیا پر دکھائے جانے والے موادپر انہیں نوٹس پہ نوٹس جاری کرتے رہیں گے تو پھر انہیں ہر سخت و گرم کیلئے تیار رہنا ہوگا۔

                                                           نیشنل یونین آف جرنلسٹس“ آئرلینڈ اور برطانیہ بھر کے 38 ہزار صحافیوں کی یونین ہے جسے 1907ءمیں قائم کیا گیا تھا، یونین کے کوڈ آف کنڈیکٹ یا ضابطہ اخلاق کے مطابق کوئی بارہ نکات ایسے ہیں جن کی پابندی صحافیوں یا ارکان ”این یو جے“ کو کرنا ضروری ہے۔ ان نکات میں سب سے اہم ترین نکتہ ایمانداری اور سچائی ہے۔ صحافی ہمہ وقت میڈیا کی آزادی کے طے کردہ اصولوں کا دفاع کرے لیکن عوام کے حق کا بھی خیال رکھے کہ انہیں درست خبر مہیا کرے،منصفانہ معلومات کو یقینی بنائے، خبر کی حقیقت اور اپنے ذاتی تجزیے میں فرق رکھے، خبر کیلئے مواد حاصل کرنے میں عوامی مفاد کو مقدم رکھے اور سچائی کے ساتھ ثبوت حاصل کرے، عوامی مفاد کے تحت کسی کی نجی زندگی، غم یا تکلیف میں سے خبر تلاش کرنے کی کوشش نہ کرے، اپنے ذرائع کی شناخت کسی پر ظاہر نہ کرے، اسے خفیہ رکھے ، دھمکیوں کو برداشت کرے اور اپنے کسی ذاتی لالچ یا فائدے کیلئے معلومات کو عوام تک پہنچنے سے نہ روکے ، کسی شخص کو عمر، جنس، رنگ و نسل، معذوری، قانونی حیثیت، ازدواجی حیثیت یا اس کے جنسی رجحان کی بنیاد پر اس کے ساتھ امتیازی سلوک نہ کرے، کسی نابالغ بچے سے گفتگو، انٹرویو کرنے سے پہلے اس کے گارڈین یا لواحقین کی رضامندی ضرور حاصل کرے ،کسی قسم کی رپورٹنگ کرتے ہوئے یا تصویر حاصل یا حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے سے اختراز اور رشوت لینے سے قطعی پرہیز کرے۔

                                                               ایک طویل فہرست کے بجائے صحافیوں کے ضابطہ اخلاق کیلئے یہ مختصر نکات ہیں جو صحافت اور صحافیوں کے پیشہ وارانہ تمام تر امور اور ذمہ داریوں کا احاطہ کرتے ہیں، پاکستان سے باہر پاکستانی سیاستدانوں کی اگر سب سے زیادہ سیاسی سرگرمیاں ہوتی ہیں تو وہ برطانیہ بلکہ لندن میں ہوتی ہیں۔ اس تناظر میں پاکستان کے صحافتی ادارے بھی سب سے زیادہ اگر ملک سے باہر ہیں تو وہ بھی لندن میں ہی ہیں لیکن صد افسوس کہ یہاں صحافت و صحافیوں کی صورتحال پاکستان سے بھی بدتر ہے ۔

                                                               اول تو یہاں صحافت نام کو نہیںہو رہی اور اگر کوئی ٹٹ بٹ ٹائپ اس نے کہا، یا انہوں نے فرمایا جیسی پریس ریلیز صحافت ہو بھی رہی ہے تو بھی بیس سے لیکر سو ڈیڑھ سو پاﺅنڈ تک اپنی اپنی اوقات کے مطابق سیاسی، سماجی و مذہبی رہنماﺅں یا کمیونٹی کے دیگر افراد سے ”منہ دکھائی“ وصول کرنے کے بعد ہی کوئی تقریب میڈیا کی زینت بنتی ہے۔ یقینا اس قسم کے کاسہ لیسوں کے درمیان چندایک سکہ بند صحافی بھی موجود ہیں جو واقعتاً کسی قسم کے مالی مفاد سے قطع نظر خبر کو اس کی صحت کے مطابق اپنے ٹیلی ویژن یا اخبار کی زینت بناتے ہیں، ورنہ زیادہ تر تو با، با بلیک شیپش ہی ہیں جو ہمہ وقت صحافت کی بے عزتی و بدنامی کا باعث بنتی ہیں،کیونکہ ان کیلئے نہ کوئی ضابطہ ہے اور نہ اخلاق سے ان کا کوئی واسطہ۔

AIOU Solved Assignment 2 Code 5625 Spring 2024

                                سوال نمبر4: پاکستان میں صحافت کے پس منظر میں قانون ہتک عزت اور قانون توہین عدالت کے مختلف پہلوؤں کا جائزا لیں؟                                                                   

                            ہتک عزت قانون کے خلاف احتجاج

پاکستان میں ہتک عزت کے مجوزہ قانون کے خلاف اتوار کے روز اسلام آباد اور جڑواں شہر راولپنڈی کے صحافیوں کی تنظیم “آر آئی یو جے” نے احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔ مظاہرین نے ہتک عزت کے مجوزہ قانون کو کالا قانون قرار دیتے ہوئے مسترد کیا اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ فی الفور مسودہ قانون واپس لیا جائے۔                                                                                                                        

                                                             نواز رضا جو کہ پریس کلب کے صدر بھی ہیں، کی سربراہی میں کیے جانے والے احتجاجی مظاہرے کے شرکاء نے حکومت کے خلاف نعرہ بازی بھی کی۔ حکومت نے گذشتہ ہفتے کے آخر میں قومی اسمبلی میں ہتک عزت کے قانون میں ترمیم کا بل پیش کیا تھا جس میں الزام تراشی اور بدنام کرنے کی غرض سے شائع کی جانے والی جھوٹی خبریں دینے والوں کے خلاف سخت کاروائی کی تجویزیں دی گئیں ہیں۔ وہ بل قومی اسمبلی کی متعلقہ قائمہ کمیٹی کے سپرد کیا گیا ہے۔

                                          بل پیش کرنے کے وقت صحافیوں نے پریس گیلری سے واک آؤٹ کیا تھا جس کے بعد وزیراعظم چودھری شجاعت حسین نے صحافیوں کے نمائندہ وفد سے ملاقات میں انہیں یقین دلایا تھا کہ حکومت ان کے خدشات دور کرے گی۔

                                                       بل کے مسودے کے حوالے سے پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے مرکزی جنرل سیکریٹری سی آر شمسی نے بی بی سی اردو ڈاٹ کام کو بتایا کہ کسی اخبار میں شائع ہونے والی خبر کی بنیاد پر مبینہ طور پر متاثرہ شخص خبر کو جھوٹا قرار دیتے ہوئے فوجداری مقدمہ داخل کراسکتا ہے۔

                                                 انہوں نے بتایا کہ پہلے سے موجود ہتک عزت کے قانون کے مطابق تین ماہ کی سزا اور پچاس ہزار روپوں تک جرمانہ کیا جاسکتا ہے لیکن ترمیمی بل میں سزا تین سال اور جرمانہ ایک لاکھ روپوں تک کرنے کی تجویز ہے۔

شمسی کے مطابق ہتک عزت کے نافذ قانون کے تحت مقدمہ دیوانی یا سول عدالت میں چلایا جاتا ہے لیکن مجوزہ قانون میں ضابطہ فوجداری کے تحت مقدمہ سیشن جج چلائیں گے اور دو ماہ کے اندر سزا سنانے کے وہ پابند بھی ہوں گے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ پاکستان میں پہلے سے سولہ ایسے قانون موجود ہیں جو اظہار رائے کی آزادی کے منافی ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ حکومت کا مجوزہ قانون ایک خطرناک قانون ہے جو ان کے بقول صحافت کو مفلوج اور گونگا بنادے گا۔

حکومت کا متعلقہ بل پیش کرتے وقت دعوٰی تھا کہ اس سے اخبارات متاثر نہیں ہوں گے                                                     اور اس قانون سے اظہار رائے کی آزادی پر بھی کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
اخباری مالکان کی تنظیم ’اے پی این ایس’ کے سرکردہ رہنما حمید ہارون کا اس قانون کے متعلق کہنا ہے کہ حکومت اس قانون کے ذریعے صحافیوں اور عدالتوں پر زیادہ پابندیاں لگانے کا ارادہ رکھتی ہے۔

AIOU Solved Assignment Code 5625 Autumn 2024

سوال نمبر 5: اخبار کے مختلف ایڈیشن کیسے تیار کئے جاتے ہیں؟ تفصیلات بیان کریں؟            

                                    خبارات کی ابتداء کاغذ کی ابتداء کے بعد ہوئی۔ ویسے ابتداء سے ہی ما قبل تاریخ کے زمانے سے انسان خبروں کی ترسیل مختلف انداز میں کرتا رہا ہے۔ عیسیٰ ؑ سے ہزاروں سال قبل بھی انسان دشمن سے بچنے کی تدبیریں نکالتا اور دھواں وغیرہ کے ذریعہ اطلاعات کی ترسیل کرتا تھا۔ چین میں سب سے پہلے کاغذ ایجاد کیا گیا اس کے بعد اخبارات کا وجود عمل میں۔ ہندوستان میں اخبارات کی تاریخ ڈھائی سو (250) سال پرانی سمجھی جاتی ہے۔ انگریزوں کی آمد سے ہی اخبارات کی آمد ہوئی اور اٹھارویں صدی کی ابتداء میں ہندوستان سے پہلا اخبار شائع ہوا جس کے ایڈیٹر، نامہ نگار اور سب کچھ ایک ہی شخص تھا جیسے انگریزوں سے سرویس سے بے دخل کر دیا تھا۔

اخبارات شروع میں خبروں کے لیے محدود ذرائع سے استفادہ کرتے تھے۔ دور دراز کی خبریں آہستہ آہستہ آتی تھیں۔ جب کہ مقامی خبریں مخبر،خبری،وغیرہ کے ذریعہ سے حاصل کی جاتی تھیں۔ان خبروں کی تصدیق لازمی جز تھا جس کے لیے بغیر خبری کو مطلع کئے دوسرے خبری کو بھی اسی خبر کی تحقیق کے لیے روانہ کیا جاتا تھا اور دونوں کی خبروں کی اگر تضاد نہ ہو تو اس کو صحیح تسلیم کر لیا جاتا اور اس کو شائع کر لیا جاتا تھا۔

آج کا میڈیا وسیع ہو چکا ہے اور لمحوں میں دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک خبریں پہنچتی ہیں۔ اخبارات کے لیے مختلف ذرائع سے خبریں پہنچتی ہیں اس کی تفصیل ہم اس مضمون پراجکٹ رپورٹ میں پڑھیں گے۔

ایڈیٹر اپنے اپنے شعبہ کے اسٹاف رپورٹر، نیوز کے عملہ اور دیگر متعلقہ عملہ کا نگران ہوتا ہے۔ بہت سے اخبارات مختلف شعبوں کے لیے خصوصی ایڈیٹروں یا کالم نویسوں کی خدمات بھی حاصل کرتے ہیں۔ جیسے مشاورتی کالم، مزاحیہ کالم، عام معلوماتی کالم۔

                                                                         ادارتی عملہ کے تعاون کے لیے بہت سی خصوصی سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں۔ مثلاً اخبار کے کتب خانے میں حوالہ جاتی کتب کے علاوہ ماضی کے شمارے، اشاعتوں میں کام آنے والی تصاویر، خاکے، اہم تواریخ وغیرہ موجود رہتے ہیں جن کو عملہ بوقت ضرورت فوری حاصل کر کے کام میں لاتا ہے۔ اس کے علاوہ آج کل کمپیوٹر کی مدد سے بھی عصری اور ماضی کے ریکارڈ کو فوری حاصل کرنے کے بندوبست کیے جانے لگے ہیں۔ اخبارات میں فوٹو لیباریٹری بھی ہوتی ہیں جو تصاویر کو چھاپنے کے لیے تیار کرتی ہے۔ فی زمانہ روایتی کیمروں کے علاوہ عددی کیمرے (Digital Cameras) بھی بہت معاون رول ادا کر رہے ہیں۔

کاروباری شعبہ اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ اخبار کو مجموعی طور پر منافع حاصل ہو رہا ہے۔ کاروباری شعبہ کا منیجر، شعبہ اشتہارات، شعبہ تقسیم یعنی سرکیولیشن اور شعبہ ترقی و ترویج یعنی پروموشن کے منیجروں کے تعاون کے ساتھ کام کرتا ہے۔ شعبہ اشتہارات اخبار میں شائع کرنے کے لیے مختلف النوع اشتہارات کی وصولی کا اہم فریضہ انجام دیتا ہے۔ سرکیولیشن منیجر اخبار کی مناسب اور مطلوبہ تقسیم کی ذمہ داری نبھاتا ہے۔ جب کہ شعبہ ترقی و ترویج کا منیجر اخبار کی جانب عوام کی توجہ مبذول کروانے یعنی اخبار کو عوام میں مقبول بنانے اور نئے خریدار بنانے کے لیے مختلف طریقوں اور اُمور کو رو بہ عمل لاتا ہے۔ کاروباری شعبہ کے تحت اخبار کی آمدنی و اخراجات کے حسابات کا شعبہ بھی کام کرتا ہے۔

یکانکی شعبہ اخبار کو چھاپنے کی ذمہ داری سنبھالتا ہے۔ اس شعبہ کا منیجر صفحات کی تشکیل سے لے کر چھپائی کے لیے پلیٹ کی تیاری اور چھپائی کے سبھی مرحلوں کی نگرانی کرتا ہے اور متعلقہ عملہ کی کاروائیوں میں تال میل پیدا کرتا ہے۔ اخبار کی چھپائی کے بعد تقسیم کا عملہ اخبار کی مطلوبہ کاپیوں کو متعلقہ علاقوں اور تقسیم کے مراکز کو روانہ کرتا ہے۔

اخبار کی تیاری میں معلومات کو اکٹھا کرنا پہلا مرحلہ ہوتا ہے۔ یہ معلومات مختلف ذرائع سے حاصل ہوتی ہیں۔ تاہم اس کے دو اہم ذرائع ہوتے ہیں:

  1. خود اخبار کے رپورٹرس
  2. نیوز سرویس کی ایجنسیاں۔

رپورٹرس اپنی تحقیقات، چھان بین اور انٹرویوز وغیرہ کے ذریعہ معلومات حاصل کرتے ہیں۔ معلومات کی نوعیت کے لحاظ سے بھی مختلف رپورٹرس متعین کیے جاتے ہیں۔ اخبار کے رپورٹرس زیادہ تر مقامی خبروں کی ذمہ داری سنبھالتے ہیں۔

قومی اور بین الاقوامی خبروں کے لیے نیوز ایجنسیاں معلومات فراہم کرتی ہیں۔ بعض اخبارات نیوز سنڈیکیٹ (Syndicate) سے بھی خبریں حاصل کرتے ہیں۔ نیوز سنڈیکیٹ کو کوئی بڑا اخبار چلاتا ہے یا چند اخبارات باہم مل کر سنڈیکیٹ تشکیل دیتے ہیں تاکہ ایک دوسرے کی معلومات سے استفادہ کر سکیں اور دوسروں کو بھی معلومات فروخت کر کے منافع حاصل کریں۔

اخبار کے لیے لکھنا یا ایڈیٹ کرنا: کسی بھی خبر کو لکھنے کے لیے رپورٹر پہلے پیراگراف میں اس خبر کی اہم بات کو اجاگر کرتا ہے۔ اس کو خبر کا پہلا ٹکڑا یا سبقت (Lead) کہا جاتا ہے۔ اس کے بعد کے حصہ میں خبر کی ساری تفصیل پیش کر دی جاتی ہے۔ یہ خبر اب ایڈیٹر کو بھیجی جاتی ہے جو اس کو پڑھ کر اور اس میں ضروری ہو تو رد و قداح کرتا ہے اور ساتھ ہی اس کے لیے ایک موزوں سرخی بھی دیتا ہے۔ ایڈیٹر خبر کے مواد کو کچھ حد تک یا پورے کا پورا رپورٹرس اور ایڈیٹرس یہ کام کمپیوٹر پر بھی انجام دینے لگے ہیں جس سے کام میں سرعت پیدا ہو گئی ہے اور سرعت اخبار کا ایک اہم تقاضہ ہوا کرتی ہے۔

                                                                                                      اخبارات عموماً اپنی پیش کش میں غیر طرفدارانہ انداز ملحوظ رکھتے ہیں۔ ان میں ایک اجتماعی اور ادارہ جاتی طرز کار فرما ہوتا ہے۔ یہ عموماً متوسط طبقہ کی نمائندگی کرتے ہیں۔ اس لیے کہ اخبارات کے زیادہ تر ناشر خود متوسط طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ صفحات کی تعلیم کے عام ہونے اور صحافیوں کے لیے پیشہ ورانہ اداروں کو قائم ہونے اور ان کی ترقی کے باعث صحافیوں کو با وقار انداز میں اور بے لوث طریقہ سے نڈر ہو کر خبریں وغیرہ پیش کرنے میں مدد ملی ہے۔ صحافت کی تعلیم و تربیت نے جہاں ایک جانب تربیت یافتہ صحافیوں کو تیار کرنے میں تعاون دیا وہیں مختلف اخبارات میں متن کی یکسانیت (similarity) کے ایک نقص کو بھی پروان چڑھایا ہے۔ خبر لکھنے کی تکنیکیں اور اصول چوں کہ ایک جیسے ہوتے ہیں لہٰذا کسی علاقے کے مختلف اخبارات کے مختلف صحافی جب کسی خبر کو تحریر کرتے ہیں تو اس خبر کے متن کا انداز، اس کی زبان اور استعمال اصطلاحات میں بڑی حد تک یکسانیت آ جاتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ گویا یہ خبریں ایک دوسرے کی کاربن کاپی ہوں۔

ساری دُنیا میں چھپنے والے اخبارات میں امریکہ کے اخبارات بہت ضخیم ہوتے ہیں۔ اخبار بینی کے معاملہ میں ملک ناروے (Norway) سر فہرست ہے۔ یہاں ہر ایک ہزار افراد میں تقریباً 610 کاپیاں فروخت ہوتی ہیں۔ اس کے بعد نمبر آتا ہے جاپان، جرمنی اور فن لینڈ کا۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ صنعتی طور پر ترقی یافتہ ممالک میں اخبارات کی پذیرائی زیادہ ہوتی ہیں۔ جب کہ ترقی پذیر ممالک میں غربت اور ناخواندگی کے باعث اخبار پڑھنے والوں کی تعداد بہت کم ہوتی ہے۔

براعظم ایشیا میں جاپان اور چین ایسے ممالک ہیں جہاں چھاپے خانے کا نظام بہت ترقی یافتہ ہے۔ جاپان کا یومیوری شمبن ساری دُنیا میں سب سے زیادہ چھپنے والا اخبار ہے۔ یہ روزنامہ فی دن تقریباً 140 لاکھ کاپیاں چھاپتا ہے۔

ہمارے ملک میں چھوٹے بڑے تقریباً دو ہزار اخبار 80 سے زائد زبانوں میں چھپتے ہیں۔ ان کی جملہ نکاسی تقریباً 170 لاکھ ہے۔ ملک پر انگریزی اخبارات کا غلبہ ہے۔

آسٹریلیا میں تقریباً 60 روزنامے چھپتے ہیں جن کی مجموعی نکاسی 35 لاکھ کے قریب ہے۔ یوروپ میں برطانوی جزائر کے باشندے، روزناموں کے مطالعے کے بڑے شوقین ہوتے ہیں۔ سلطنت متحدہ برطانیہ اور جمہوریہ آئرلینڈ میں یوں تو چھپنے والے روزناموں کی تعداد کم ہے لیکن ان کی سرکیولیشن بہت زیادہ ہے۔ یہاں سے تقریباً 120 روزنامے نکلتے ہیں۔

دوسری جنگ عظیم سے قبل فرانس سے نکلنے والے اخبار کسی نہ کسی سیاسی پارٹی یا سماجی گروہ سے وابستہ رہا کرتے تھے۔ جرمنی میں 357 روزنامے شائع ہوتے ہیں۔ ان کی مجموعی سرکیولیشن 20 ملین سے زیادہ ہے۔ لاطینی امریکہ میں پریس پر حکومت کا اثر و رسوخ ہوتا ہے۔

ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں تقریباً 1,700 روزنامے اور 7,500 ہفتہ وار اخبار شائع ہوتے ہیں۔ یہاں کے اخبارات کی مجموعی سرکیولیشن 60 ملین سے زائد ہے۔

اخبارات کے لیے خبروں کے حصول کے تین اہم ذرائع ہیں۔

  1. نامہ نگار۔
  2. صحافتی انجمنیں۔
  3. سرکاری ایجنسیاں۔

آئندہ صفحات میں اس کی تفصیل کا بغور مطالعہ کریں گے۔ نامہ نگار کسی بھی اخبار کے لیے اہم ہوتا ہے۔ہوتا ہے۔ اخباروں میں کام کرنے والا عملہ تمام ہی اہم ہوتا ہے لیکن خبریں جو اخبار کا لازمی عنصر ہوتی ہیں اور عوام جس کے لیے اپنی جیب سے پیسے خرچ کرے اخبار خریدتے ہیں تاکہ آس پاس کی جانکار ی اور معلومات حاصل ہو سکے۔ خبروں کے پیچھے دوڑ نا خبر کی حقیقت معلوم کرنا،سچائی کو عام کرنا اور جھوٹ کا پلندہ پھوڑنا یہی ہمارے رپورٹرس کا کام ہوتا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *