Free AIOU Solved Assignment Code 5438 Spring 2024

Free AIOU Solved Assignment Code 5438 Spring 2024

Download Aiou solved assignment 2024 free autumn/spring, aiou updates solved assignments. Get free AIOU All Level Assignment from aiousolvedassignment.

مشق نمبر 1

3. ایسٹ انڈیا 2. انگلستان 1. 14
6. مسلمانوں 5. مولوی احمد اللہ 4. سکھوں
9. لاہور 8. علامہ اقبال 7. مغلوں
    10.کراچی

 

 

 

 

 

 

AIOU Solved Assignment Code 5438 Spring 2024

Q No2.

1916ءمیں کانگریس اور مسلم لیگ کے درمیان میثاق لکھنو کو عمل میں لانے اور بمبئی میں لارڈ ولنگٹن کے رجعت پسندانہ اقتدار کے خلاف جرات مندانہ موقف اختیار کرنا قائداعظم کے وہ کارنامے ہیں جس کے سبب ان کا نام ہندوستان کے گھر گھر میں پھیل گیا۔ محمد علی جناح کی ابتدائی زندگی سے ہی اڑان اپنے ہم عصروں سے بہت مختلف اور تیز تر تھی۔ سولہ سال کی عمر 1897ءمیں تعلیم کی غرض سے انگلستان گئے۔ آپ لندن میں اکثر پارلیمنٹ کی کاروائی سننے چلے جاتے۔ انہی دنوں معروف ہندوستانی سکالر دادابھائی نورو جی مجلس عاملہ کا انتخاب لڑ رہے تھے۔ تمام ہندوستانی اس میں پرجوش انداز میں مصروف تھے ۔ ان کے مدمقابل مارکوس آف سالبری نے دادا بھائی کو Black man کہہ کر ہندوستانیوں کی توہین کی جس پر سب مشتعل تھے جناح بھی پورے انہماک سے اس جدوجہد میں شامل ہوئے۔ ایک خاص علاقہ ان کے سپرد تھا ۔ نتائج کی غیر متوقع کامیابی پر دادا بھائی نے ایک بڑی تقریب میں محمد علی جناح کی منفرد کارکردگی کا خصوصی شکریہ ادا کیا کیونکہ ابتدائی عمر سے ہی انتہائی ایمانداری کے سبب گردو بیش میں رہنے والے حضرات معترف تھے۔آپ کی سوچ ہمیشہ مثبت اور شفاف ہونے سے زندگی کے ہر مرحلے میں عزت و احترام کا مقام ملا۔ طبیعت میں انصاف پسندی کوٹ کوٹ کر بھری تھی ۔آپ کے اعلیٰ کردار اور مدلل موقف کے سامنے ہندوستان میں موجود ہر طاقت زیر او رڈھیر ہو جاتی ۔اسی لئے آپ دادا بھائی نورو جی کے اوائل میں ہی سیکرٹری بنے آپ بدرالدین طیب جی اورشیر دل فیروز شاہ مہتہ جیسے محب وطن اور شعلہ بیان لوگوں کی صحبت میں کام کیا۔ محمد علی جناح کی ابتدائی تقریر مسلمانوں کے حقوق سے متعلق تھی۔ مشہور زمانہ وقف علی الاولاد کیس جس نے ان کو شہرت کی بلندیوں تک پہنچادیا۔1910ءمیں بمبئی پریذیڈنسی کے مسلمانوں نے سپریم لیجسلیٹو کونسل کے لئے اپنا نمائندہ چنا محمد علی جناح نے پیچیدہ و متنازعہ مسودہ قانون کو غیر سرکاری ممبر ہونے کے باوجو داس متانت قانونی ہنر مندی اور جس تدبیر سے کونسل کے مختلف مرحلوں سے گزار کر قانون بنانے میں کامیاب ہوئے اس کے باعث ہندوستان اور برطانیہ میں یکساں آپ کی قدر و منزلت کو چار چاند لگ گئے۔ 1915ءمیں اپنے ایک رہبر گوپال کرشنا گوکھلے کی موت کاصدمہ اٹھانا پڑا۔ گوکھلے کی موت نے ہندو مسلم کو غم کی یکجہتی کے باعث قریب کر دیا ۔ انڈین نیشنل کانگریس کا اجلاس بمبئی میں متوقع تھا لہٰذا محمد علی جناح نے مسلم لیگ کو بھی بمبئی میں اجلاس بلانے پر قائل کر لیا۔ محمد علی جناح کمال جرات اور بے مثال لگن نے برصغیر کی تاریخ میں ایک عظیم باب کو جنم دینے میں کامیاب ہوگئے۔ تاریخ برصغیر میں ایسے لمحے کم ہی میسر ہونگے۔ 30دسمبر 1915ءکو نیشنل کانگریس کی مسلمہ قیادت مسلم لیگ کے اجلاس میں شرکت کے لئے نمودار ہوتے ہیں۔ دونوں جماعتوں نے ریفارم کمیٹیاں قائم کرنے کا فیصلہ کیا جن کا مشترکہ اجلاس نومبر 1916ءمیں منعقد ہوا پھر دسمبر 1916 ءمیں دونوں جماعتوں کا اجلاس لکھنو میں منعقد تھا ۔مسلم لیگ کے اجلاس میں بنگال سے فضل الحق، عبدالرسول، مولانا اکرم خان اور ابوالقاسم۔ پنجاب سے سر فضل حسین، ذوالفقارعلی خان یوپی سے سر رضا علی، سرمحمد یعقوب۔ آل نبی اور آفتاب احمد خان۔ بہار سے حسن امام اور مظفر حق نے شرکت کی اور لکھنو پیکٹ طے پایا۔

لکھنو پیکٹ محمد علی جناح کی دور اندیشی اور فراصت کا وہ کارنامہ ہے جو آگے چل کے دو قومی نظریے کی بنیاد بنا ۔ہندوﺅں نے پہلی اور آخری مرتبہ مسلمانوں کے لئے جداگانہ انتخاب کو تسلیم کیا گومسلمان اور ہندوﺅں کا ایک بڑا طبقہ اس پیکٹ کے شدید خلاف تھا مگر یہ حقیقت بھی اپنی جگہ اٹل ہے کہ جداگانہ انتخاب ہی تقسیم ہند اور قیام پاکستان کی بنیاد بن پایا ۔ کانگریس کا دعوی کہ پورے ہندوستان کی نمائندہ جماعت ہے ہمیشہ کے لئے باطل ثابت ہوگیا ۔ محمد علی جناح کی کرشماتی شخصیت کو ملک گیر پزیرائی ہند اور برطانیہ کے ہر چھوٹے بڑے نے ان کی بے پناہ صلاحیتوں کو سرایا اس پر بلبل ہند مس سروجنی نائڈو نے آپ کی شخصیت قانونی معاملات میں واضح برتری سیاسی عمل میں بلند پایہ خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے برصغیر کے عظیم سپوت کو ہندو مسلم اتحاد کا سفیر قرار دیا اور آپ پر ایک کتاب بعنوان Muhammad Ali Jinnah an ambossdor of unity” ” تصنیف کی علامہ سید سلیمان ندوی لکھنو کے اس تاریخی اجلاس میں شریک تھے ۔وہ قائداعظم کی قومی و سیاسی بصیرت سے بے حد متاثر ہوئے اور انہوں نے ایک نظم موز وںکی جس میں اپنے جذبات کا اظہار یوں کیا ۔

AIOU Solved Assignment 1 Code 5438 Spring 2024

Q No 3.

”ری وائسرا ئے ہندلارڈ ماؤنٹ بیٹن نے کہا: مجھے صرف اس لئے ہندوستان بھیجا گیا تھاکہ میں ایک متحدہ ہندوستان ہی کو اقتدار
منتقل کروں. اس مقصد کے لئےمیں نے بہت کوشش کی دن رات ایک کر دیے لیکن میرے مقصد کی راہ میں ایک شخص چٹان کی طرح رکاوٹ بنا رہا اور وہ تھا محمد علی جناح”

لارڈ ماؤنٹ کے اس بیان کے بعد کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ کانگریس کو انگر یزحکومت کی پشت پناہی حاصل نہیں تھی۔ یہ بیان کانگریس کے موقف کی کھلی حمایت ہے۔ کانگریس کا بھی یہی موقف تھا۔

گاندھی نے کہا’’قرارداد پاکستان ایک پاپ ہے۔ یہ ہماری دھرتی ، ہماری گئوماتا کو چیرنے پھاڑنے کی اسکیم ہے۔ ہم ایسا کبھی نہیں ہونے دیںگے‘‘۔ تمام ہندو رہنما مل کریہی راگنی الاپ رہے تھے۔ا س کے ساتھ وہ مسلمان جماعتیں جو پاکستان بننے کے خلاف تھیں وہ بھی اسی نظریے کی تائید کنندہ تھیں کہ ہندوستان کی تقسیم نہیں ہوناچاہیے۔ گویا قائداعظم کا مقابلہ ایک نہیں تین طاقتوں سے تھا۔ شروع میں قائد اعظم بھی چاہتے تھے کہ ہندواور مسلمان متحد ہوکر انگریزوں کے خلاف تحریک چلائیں اورآزادی کے بعدمتحد ہ ہندوستان میں مل کر رہیں۔ آپ کو ہندو مسلم اتحاد کے سفیرکا لقب بھی اسی بے لوث غیر متعصبانہ سوچ رکھنے کی وجہ سے دیا گیا۔ ہر مذہب ،ہر مسلک، ہر طبقے کے لوگوں میں آپ یکساں مقبول تھے۔

ہندوستان کی بڑی سیاسی جماعت انڈین نیشنل کانگریس نے اسی مقبولیت کے پیش نظرآپ کوکانگریس میں شمولیت کی دعوت دی۔ آپ نے کانگریس میں شامل ہو کرکمال مہارت، ذہانت، بے باکی اور دلیری سے ہر طبقے اور قوم کے لوگوں کے حقوق کی جنگ لڑی۔ مگرجب قائد اعظم پر ہندوذہنیت آشکارا ہو گئی تو آپ نے کانگریس کو چھوڑ دیا اور سیاست سے کنارا کش ہو کرانگلینڈ چلے گئے۔ مسلم لیگ کے دور بیں رہنماؤں نے محسوس کیا کہ ذہین اور دلیر محمد علی کو مسلم لیگ میں شامل کرناچاہیے۔ آپ کی مقناطیسی شخصیت نے مسلم لیگ میں ایک نئی روح پھونک دی۔ پاکستان کا مقدمہ آپ نے اس انداز میں لڑا کہ غیربھی آپ کی عظمت کا اعتراف کرنے پرمجبور ہوگئے۔ ممتاز صحافی بیورلے نکلسن نے اپنی کتاب ’’ورڈکٹ آف انڈیا میںقائداعظم کوایشیا کی عظیم شخصیت کہا۔ ڈاکٹراجیت جاوید نے اپنی کتاب’’سیکولراینٖڈنیشلسٹ جناح ‘‘میں قائدکی جرأت اور ایمانداری کااعتراف کیا ہے۔

برطانیہ کے سابق وزیر ہندلارڈ پیتھک لارنس نے کہا کہ قائداعظم محمد علی جناح کا نام ایک عظیم قوم کی تشکیل کرنے والے رہنما کی حیثیت سے تاریخ کے صفحات میں ہمیشہ زندہ رہے گا۔ بمبئی کے وزیر اعلٰی پی جی کھیر نے کہا:محمد علی جناح تاریخ ساز شخصیت تھے۔ان کی قوت فیصلہ،خود اعتمادی اور بے مثال وکالت نے ان کو ایک قابل رشک رہنما بنا دیا تھا۔ ان کی موت ہم سب کا اجتماعی نقصان ہے‘‘

بلبل ہند مسز سروجنی نائڈو نے کہا : اگر مسلم لیگ کے پاس ایک سو گاندھی ،ایک سو نہرو اورایک سوسردار پٹیل اورایک سو ابو الکلام آزاد ہوتے اور کانگریس کے پاس صر ف ایک جناح ہوتا تو پاکستان کبھی معرض وجود میں نہ آتا‘‘.عظیم قائد کویہ ایک بڑا خراج تحسین ہے۔ اسے یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ کانگریس کے نہرو، گاندھی ، پٹیل اور آزادجیسے بڑے لیڈروں کی ذہانت کویکجا کر کے سو گنا کر دیا جائے توبھی وہ قائداعظم کی ذہانت کی گردکو نہیں پہنچ سکتے۔ سچ تو یہ ہے کہ قائداعظم کے سیاسی مخالفین بھی ان کی عظمت کو تسلیم کرتے تھے۔

بی جے پی کے سینئر لیڈر اور بھارت کے چوٹی کے رہنما ایل کے ایڈوانی نے دورہ پاکستان کے وقت قائداعظم کے مزار پر حاضری دی تومحمدعلی جناح کے لئے مہمانوں کے لئے رکھی گئی کتاب میں لکھا’’وہ عظیم رہنماجس نے تاریخ رقم کی‘‘ ۔ عظمت وہ جسے غیر بھی تسلیم کریں ،جادووہ جو سر پرچڑھ کر بولے اورقائد کی عظمت کو بے لاگ حق گو، غیرجانبدار مخالفوںنے بھی تسلیم کیا ہے۔

قائداعظم سیلف میڈ آدمی تھے۔جب وہ تعلیم مکمل کر کے واپس آئے توان کے والد کا کاروبار ٹھپ ہو چکا تھا۔ سر پر قرضوں کا ایک انبار تھا۔ آپ نے ممبئی میں وکالت شروع کر دی۔ یہ ہندوستان کے چوٹی کے وکلا کا شہرتھا۔ پہلے تین سال تک یہ حال تھا کہ دفتر تک جانے کے لئے کرایہ نہیں ہوتا تھا۔ جس کی وجہ سے وہ گھر سے دفتراور دفتر سے گھر پیدل آیا جایا کرتے تھے۔ مگر محنت اوراستقامت سے آپ نے وہ کر دکھایا کہ کوئی آپ کا ہمسر دکھائی نہ دیتا تھا۔

تحریک پاکستان میں ایک مایوس اور منتشرقوم کو لے کر اس وقت کی دنیا کی سپر پاورانگریز سرکاراورہندوستان کے کاروباری میدان پر چھائے ٹاٹا اوربرلا جیسے ہند وسرمایہ داروں سے مقابلہ کرنا آسان نہ تھا ۔ مگر اس سے زیادہ خطر ناک مرحلہ وہ تھا جب کئی مسلمان جماعتوں نے پاکستان کے نظریے کو جھٹلایا اور کانگریس کی حمایت کر دی۔ یہ ایک نہایت نازک اور نفسیاتی مسئلہ تھا۔ جس بات کو اپنے نہ مانتے ہوں اسے غیروں سے کیسے منوایا جاسکتا ہے۔ یہ قوم کو مخمصے میں ڈالنے اور بے یقینی کا شکار کرنے والی حرکت تھی۔ بے یقینی۔۔۔ جو یقینی شکست کی بنیاد ہوتی ہے۔ مگر قائداعظم کے عزم واستقلال اور مقناطیسی شخصیت نے سب کوشکست دی اورپاکستان حاصل کرلیا

AIOU Solved Assignment 2 Code 5438 Spring 2024

Q No 4.

تیسری گول میز کانفرنس نومبر 1932ء کے وسط میں منعقد ہوئی۔ تب تک برطانیہ کا اقتدار لیبر پارٹی کے ہاتھوں سے نکل کر سیاسی جماعتوں کے اتحاد کے پاس جا چکا تھا۔ لیبر پارٹی اب حزبِ اختلاف میں شامل تھی، اگرچہ وزارتِ عظمیٰ کا عہدہ اب بھی رامسے میکڈانلذ کے ہی قبضے میں تھا۔

اس کانفرنس میں بھی کوئی قابل ذکر پیش رفت کرنے میں کامیابی حاصل نہ کی جا سکی۔ کانگریس اور لیبر حزبِ اختلاف نے اس میں شرکت نہ کی۔ مختلف کمیٹیوں کی پیش کی گئی رپورٹوں کا جائزہ لیا گیا اور آخر میں ایک قرطاسِ ابیض شائع کیا گیا۔ برطانوی پارلیمنٹ میں اس دستاویز پر بحث ہوئی اور مجوزہ اصلاحات کا تجزیہ کرنے کے لئے ایک جوائنٹ سیلیکٹ کمیٹی مقرر کی گئی۔ اس کمیٹی میں برطانوی پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے سولہ سولہ ارکان کے علاوہ برطانوی ہندوستان کے بیس نمائندوں اور آزاد ہندوستانی ریاستوں کے سات نمائندے شامل تھے۔ کمیٹی کی سربراہی لارڈ لن لتھگو کے سپرد کی گئی۔ کم و بیش ڈیڑھ سال کے غور و خوض کے بعد 5 فروری 1935ء کے روز کمیٹی نے مسودۂ قانون کا پہلا ڈرافٹ پیش کر دیا۔ تقریباً دو ماہ تک یہ مسودہ دار الامراء اور دار العوام میں زیر بحث رہا اور بالآخر جولائی 1935ء میں ، شاہِ برطانیہ کے دستخط کے ساتھ، گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ مجریہ 1935ء کے نام سے منصہ شہود پر نمودار ہو گیا۔ اس ایکٹ کے اہم مندرجات حسب ذیل ہیں :

اس ایکٹ میں ہندوستان کو ایک وفاق بنانے کا وعدہ کیا گیا تھا جس میں صوبے اور ریاستیں دونوں شامل ہوتے۔ لیکن وفاقی مرکزی طرزِ حکومت کا قیام اس وقت تک ممکن نہ تھا جب تک کہ ایک مخصوص تعداد میں ریاستوں کے سربراہان الحاق کے معاہدے پر دستخط نہ کر دیتے۔ چونکہ ایسا ممکن نہ ہو سکا لہٰذا مرکزی حکومت 1919ء کے ایکٹ کے مطابق کرتی رہی اور 1935ء کے ایکٹ کا صوبائی حکومتوں سے متعلق حصہ رو بہ عمل رہا۔ ریاستوں کے حوالے سے مرتب کی جانے والی دفعات غیر موثر ہو گئیں۔

گورنر جنرل کو بدستور مرکز کی سربراہی اور انتظامیہ، قانون سازی اور مالیات کے حوالے سے وسیع اختیارات حاصل رہے۔ وفاقی مجلس قانون ساز کو دو ایوانوں میں تقسیم کر دیا گیا: ایوانِ بالا یعنی ریاستوں کی کونسل اور ایوانِ زیریں یعنی وفاقی اسمبلی۔ ریاستوں کی کونسل میں 260 ارکان کی گنجائش رکھی گئی جن میں سے 156 برطانوی ہندوستان سے منتخب کئے گئے اور 104 کی نامزدگی ریاستوں کے حکمرانوں کی طرف سے کی گئی۔ وفاقی اسمبلی میں 375 نشستیں رکھی گئیں جن کے لئے 250 اراکین کا انتخاب برطانوی ہند کے صوبوں کی مجالس قانون ساز سے کیا گیا اور 125 کو ریاستوں کے حکمرانوں کی طرف نامزد کیا گیا۔

مرکزی مجلس قانون ساز کو کسی بھی طرح کا قانون منظور کرنے کا اختیار دے دیا گیا لیکن شرط یہ تھی کہ کسی قانون کو آئین کا حصہ بنانے سے پہلے گورنر جنرل کی منظوری حاصل کی جائے۔ دوسری طرف گورنر جنرل کو آرڈیننس جاری کرنے کا اختیار بھی دے دیا گیا۔ انڈین کونسل ختم کر دی گئی اور اس کی جگہ سیکرٹری آف سٹیٹ برائے ہند کی اعانت کرنے کے لئے چند مشیر مقرر کر دیئے گئے۔ صوبوں کو جو قلمدان تفویض ہوئے ان کے حوالے سے انہیں انتظامی خودمختاری دے دی گئی۔ مرکز میں دو عملی حکومت کو رائج کر دیا گیا البتہ صوبوں میں اسے ختم کر دیا گیا۔ سندھ کو بمبئی اور اڑیسہ کو بہار سے الگ کر کے ان کی صوبائی حیثیت بحال کر دی گئی اور دوسرے صوبوں کی مانند صوبہ سرحد میں بھی اصلاحات متعارف کرائی گئیں۔ جداگانہ انتخابی نشستوں کا نظام برقرار رکھا گیا اور مرکزی مجلس قانون ساز میں مسلمانوں کو ایک تہائی نمائندگی دینے کی ضمانت فراہم کی گئی۔ یہ بھی طے پایا کہ 11 صوبوں میں خودمختار حکومتیں قائم کی جائیں گی جن کی وزارتیں ، مجالس قانون ساز کے سامنے جواب دہ ہوں گی۔ برما اور عدن کو ہندوستان سے الگ کر دیا گیا۔ مرکز میں وفاقی عدالت قائم کر دی گئی اور اس کے ساتھ ساتھ ریزرو بینک آف انڈیا کا قیام بھی عمل میں لایا گیا۔

اگرچہ کانگریس اور مسلم لیگ دونوں نے اس ایکٹ کی مخالفت کی لیکن 1936-37ء میں منتخب ہونے والے صوبائی انتخابات میں حصہ بھی لیا جو کہ اس ایکٹ کی دفعات کے تحت منعقد ہوئے تھے۔ آزادی کے بعد، پاکستان اور بھارت کی حکومتوں نے عارضی طور پر اسی ایکٹ کو چند ترامیم کے ساتھ اپنے آئین کے طور پر رائج کیا۔

1936-37ء کے صوبائی انتخابات میں کانگریس اور مسلم لیگ نے اپنے اپنے منشور پیش کئے جو کم و بیش ایک جیسے ہونے کے باوجود دو حوالوں سے ایک دوسرے سے بالکل مختلف تھے۔ کانگریس مشترکہ انتخابی نشستوں کا مطالبہ کر رہی تھی جبکہ مسلم لیگ جداگانہ انتخابی نشستوں کے موقف پر قائم رہی۔ اس کے علاوہ کانگریس کا کہنا تھا کہ ہندی کو دیوناگری رسم الخط کے ساتھ ہندوستان کی سرکاری زبان قرار دیا جائے جبکہ مسلم لیگ اردو کو فارسی رسم الخط کے ساتھ سرکاری زبان کی حیثیت دلانا چاہتی تھی۔

ان انتخابات میں برصغیر کی سب سے پرانی، سب سے منظم اور سب سے دولتمند جماعت ہونے کی بدولت کانگریس کو اکثریت حاصل ہوئی لیکن اس کے باوجود وہ کل نشستوں کا 40 فیصد حصہ بھی حاصل نہ کر سکی۔ 11 صوبوں کی 1771 نشستوں میں سے کانگریس کو 750 حاصل ہوئیں۔ یوں گاندھی کے اس دعوے کی واضح طور پر تردید ہو گئی کہ ان کی جماعت ہندوستان کے 95 فیصد عوام کی نمائندگی کرتی ہے۔ کانگریس کی کامیابی کا بڑا حصہ ہندو انتخابی حلقوں تک محدود رہا اور 491 مسلم نشستوں میں سے محض 26 اس کے حصے میں آئیں۔ مسلم لیگ کی حالت بھی کچھ ایسی حوصلہ افزا نہ تھی اور وہ 106 نشستوں سے زیادہ جیتنے میں کامیاب نہ ہو سکی لیکن یہاں پر یہ حقیقت ملحوظِ خاطر رہے کہ مسلم لیگ ایک ایسی جماعت تھی برسوں کے اختلافات اور اندرونی چپقلشوں کے بعد، اب قائد اعظم کی زیر قیادت، خود کو ازسرنو منظم کرنے کے عمل سے گزر رہی تھی۔ یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ بہ حیثیت ایک سیاسی جماعت مسلم لیگ کی تعمیر حقیقی معنوں میں اب شروع ہوئی تھی۔

فروری 1937ء میں انتخابات کے حتمی نتائج کا اعلان کر دیا گیا۔ مدراس، اتر پردیش، مدھیہ پردیش، بہار اور اڑیسہ میں کانگریس کو واضح اکثریت حاصل ہوئی۔ بمبئی اور صوبہ سرحد میں اس نے دیگر جماعتوں کے ساتھ اتحاد بنا لئے اور اس کے ساتھ سندھ اور آسام میں بھی حکمران اتحادوں میں شمولیت اختیار کر کے قابل ذکر سیاسی حیثیت حاصل کر لی۔ یوں براہِ راست یا بالواسطہ طور پر 11 میں سے 9 صوبوں میں کانگریسی حکومتیں قائم ہو گئیں۔ پنجاب میں یونینسٹ پارٹی اور بنگال میں مولوی فضل الحق کی پرجا کرشک پارٹی کی حکومتیں قائم ہوئیں جن میں کانگریس کا کوئی دخل نہ تھا۔ مسلم لیگ کو کسی صوبے میں حکومت حاصل نہ ہو سکی۔

اب کانگریس کو اب صوبوں میں اپنی حکومتیں تشکیل دینا تھیں لیکن اس سے پہلے انہوں نے یہ شرط پیش کر دی کہ گورنر جنرل قانون سازی کے امور میں اپنے اختیارات استعمال کرنے سے باز رہے گا۔ طویل مباحث کے بعد حکومت برطانیہ نے یہ شرط منظور کر لی اگرچہ اس منظوری کی نوعیت محض زبانی تھی اور آئین میں اس حوالے سے کوئی ترمیم نہ کی گئی۔ بہرحال، چار مہینوں کے طویل عرصے کے بعد کانگریس نے جولائی 1937ء میں صوبوں میں اپنی حکومتیں تشکیل دے دیں۔

اس مرتبہ کانگریس نے کھل کر ہندو پارٹی ہونے کا ثبوت دیا اور ان کے اقتدار کے 27 مہینے برصغیر کے مسلمانوں کے لئے آزمائش و ابتلاء کا نیا دور ثابت ہوئے۔ بعض کانگریسی رہنما یہاں تک کہہ گزرے کہ وہ مسلمانوں سے گذشتہ سات سو سالوں کی غلامی کا انتقام لیں گے۔ حکومتوں کی تشکیل سے پہلے کانگریس نے مسلم عوام سے رابطے کی ایک وسیع مہم شروع کی تھی جس کا مقصد انہیں اس بات پر قائل کرنا تھا کہ برصغیر میں صرف دو سیاسی فریق ہیں یعنی کانگریس اور حکومت برطانیہ لیکن اس مہم کی ناکامی کے بعد وہ کھلم کھلا مسلم دشمنی پر اتر آئے۔ حکومت سنبھالنے کے بعد، کانگریس نے ہندی کو قومی زبان اور دیوناگری کو اس کا سرکاری رسم الخط قرار دے دیا۔ کانگریس کے جھنڈے کو قومی جھنڈا بنا دیا گیا۔ گاؤ کشی قانوناً ممنوع قرار پائی۔ تمام سکولوں میں گاندھی کی تصویریں لگا دی گئیں اور بچوں کو پابند کیا گیا کہ وہ اپنے کمرۂ جماعت میں جانے سے پہلے تصویر کو نمسکار کریں۔ بندے ماترم کو قومی ترانے کا درجہ دے دیا گیا۔ مذہبی عدم رواداری عہد کا قانون بن گئی۔ نئی مساجد کی تعمیر پر پابندی لگا دی گئی اور شرپسند ہندو عناصر نے نمازوں کے اوقات کے دوران مساجد کے سامنے ڈھول پیٹنے اور غل غپاڑہ کرنے کا وطیرہ اپنا لیا۔

کانگریس نے صوبوں میں ایک نئی تعلیمی پالیسی متعارف کرائی جسے واردہ تعلیمی سکیم کا نام دیا گیا۔ اس پالیسی کا مرکزی مقصد مسلمان بچوں کو ان کے بنیادی نظریئے سے منحرف بنانا اور ان کے اذہان میں یہ بات نقش کرنا تھا کہ وہ اول و آخر ہندوستانی ہیں اور مسلم امہ کے بجائے ہندوستانی قوم کا حصہ ہیں۔ بہار اور مدھیہ پردیش میں ودیا مندر سکیم متعارف کرائی گئی جس کے تحت پرائمری سطح پر مندر کی تعلیم لازمی قرار دے دی گئی۔ اس سکیم کا مقصد مسلمانوں کی ثقافتی روایات کو مسخ کرنا اور ہندو ثقافت کی بالادستی قائم کرنا تھا۔

کانگریسی وزارتوں نے مسلمانوں کے معاشی حالات بگاڑنے کی بھی بھرپور سعی کی۔ سرکاری ملازمتوں کے دروازے ان پر بند کر دیئے گئے اور ایسے اقدامات کئے گئے جن سے مسلم تجارت اور زراعت کو نقصان پہنچا۔ جب کانگریس کی متعصبانہ پالیسیوں کے خلاف احتجاجی مظاہرے شروع ہوئے تو ان مظاہروں کو فسادات کا رنگ دے دیا گیا اور ججوں پر دباؤ ڈالا گیا کہ وہ فسادات میں حصہ لینے والے ہندوؤں سے نرم اور مسلمانوں سے کڑا سلوک کریں۔

کانگریس کے ان اقدامات کے خلاف جہاں مسلمانوں نے احتجاج کیا، وہاں انصاف پسند برطانوی بھی خاموش نہ رہ سکے۔ اپریل 1938ء میں مارکوئس آف لوتھیان نے کانگریس حکومت کو ’’ہندو حکومت کا چڑھتا ہوا سیلاب‘‘ قرار دیا۔ ’’نیشنل ریویو‘‘ کی جون 1939ء کی اشاعت میں بھی اس حکمت کو ’’سیاسی ہندوازم کا چڑھتا ہوا سیلاب‘‘ کہہ کر پکارا گیا۔

مسلمانوں کے لئے دشواریوں سے پُر یہ دور دوسری جنگ عظیم کے آغاز تک جاری رہا۔ جنگ کے چھڑنے پر وائسرائے نے مرکزی سیاسی جماعتوں سے مشاورت کئے بغیر ہندوستان کے اس جنگ میں شامل ہونے کا اعلان کر دیا اور صوبائی حکومتوں سے اعانت طلب کی۔ کانگریس نے اس شرط پر اعانت فراہم کرنے پر آمادگی ظاہر کی کہ ہندوستان کا اقتدار فوری طور پر ہندوستانیوں کو منتقل کر دیا جائے۔ حکومت برطانیہ نے انکار کر دیا اور احتجاجاً کانگریسی ارکان نے اپنی نشستوں سے استعفے دے دیئے۔ یوں تمام صوبوں میں کانگریسی حکومتیں ختم ہو گئیں۔ یہ واقعہ 23 دسمبر 1939ء کے روز پیش آیا اور قائد اعظم نے مسلمانوں سے درخواست کی کہ وہ کانگریسی جبر و ستم سے چھٹکارا حاصل ہونے کی خوشی میں اس دن کو ’’یومِ نجات‘‘ کے طور پر منائیں اور خدا کے حضور شکرانہ پیش کریں۔

کانگریسی حکومتوں کے رویئے نے یہ حقیقت واضح کر دی تھی کہ کانگریس آزاد ہندوستان کو کس روپ میں دیکھنے کی خواہش رکھتی ہے۔ مسلمانوں کے لئے ایک علیحدہ وطن، جو اس سے پہلے محض ایک تصور تھا، اب ایک ناگزیر حقیقت بن کر سامنے آ گیا، اور سب نے جان لیا کہ اگر مسلمانوں کو آزادی کے بعد امن و آشتی کی زندگی بسر کرنا ہے تو اس کے لئے انہیں اپنا الگ وطن حاصل کرنا ہوگا۔ ہندوستان میں کبھی بھی ایک قوم آباد نہیں رہی، اور نہ ہی آئندہ کبھی ایسا ہوگا۔ دو قوموں کا وجود ایک نظریئے سے ہٹ کر ایک ٹھوس حقیقت کی شکل میں تبدیل ہو گیا۔ یہ جھٹلانا ممکن نہ رہا کہ ہندو مت اور اسلام، محض دو مذاہب ہی نہیں بلکہ دو سماجی نظام ہیں جن میں کوئی قدر مشترک نہیں۔ یہ کبھی ممکن نہ ہوگا کہ ایک ہی ملک میں یہ دونوں نظام اشتراک و ارتباطِ باہمی کے ساتھ مل کر چل سکیں۔ جو ہم آہنگی گذشتہ ایک ہزار سال سے ایک ہی خطے میں ایک ساتھ رہنے کے باوجود حاصل نہ ہو سکی، آئندہ ایک ہزار سال میں بھی اس کا حاصل ہونا محال تھا۔ ہو بھی کیسے سکتی تھی؟ جب ایک قوم کا کھانا پینا، پہننا اوڑھنا، سونا جاگنا، بولنا چالنا، عبادت کرنا، معاشرتی اطوار یہاں تک کہ طرزِ تعمیر اور رسم الخط بھی دوسری قوم سے یکسر مختلف ہوں ، اور اس پر طرہ یہ کہ وہ اس قوم کے خلاف دل میں عناد بھی رکھتی ہو، تو ناممکن ہے کہ دونوں ایک ہی ملک میں ، ایک ہی حکومت تلے، ایک ہی معاشرتی نظام کے تحت مل جل کر رہ سکیں۔ جس عمل کا آغاز جداگانہ انتخابی حلقوں کے مطالبے سے ہوا تھا، وہ علیحدہ وطن کے مطالبے کی صورت میں اپنے عروج کو پہنچ گیا۔

نظریۂ پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے کا عمل پانچ  ارتقائی مراحل میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ تاریخی تجربے نے جو بنیاد فراہم کی، اس پر کاربند رہتے ہوئے سرسید احمد خان نے مسلم شعور کی بیداری کی تحریک کا آغاز کیا۔ علامہ اقبال نے ایک فلسفیانہ تصور پیش کیا اور قائد اعظم نے اس تصور کو ایک حقیقت میں بدل دیا۔ آخر میں پاکستان کی آئینی اسمبلی نے مارچ 1949ء میں قراردادِ مقاصد منظور کر کے اسے قانونی حیثیت عطا کر دی۔

دو قومی نظریئے کی بنیاد اس اصول پر رکھی گئی ہے کہ اسلامی قومیت جغرافیائی حقیقتوں سے بالاتر ہوتی ہے۔ ایک مسلمان، خواہ اس کا تعلق کسی بھی خطے سے ہو، دین اسلام کا پیروکار ہونے کی حیثیت سے مسلم امہ کا ایک حصہ ہے۔ ارضی، نسلی یا لسانی اختلافات کوئی حقیقت نہیں رکھتے۔ تحریک پاکستان کی بنیاد اسی اصول پر رکھی گئی اور برصغیر کے مسلمانوں نے مطالبہ کیا کہ ان کے اکثریتی علاقوں کو یکجا کر کے ایک علیحدہ خطے کی شکل دی جائے جہاں وہ اپنی زندگیاں قرآن اور سنت کے اصولوں کے مطابق پوری آزادی سے گزار سکیں۔

گیارہویں صدی میں سلطان محمود غزنوی کے ساتھ ہندوستان آنے والے مورخ البیرونی نے اپنی مشہورِ زمانہ کتاب ’’کتاب الہند‘‘ میں لکھا کہ ہندو مسلمانوں سے تمام عادات و اطوار میں یکسر مختلف ہیں۔ مسلمانوں کو وہ ملیچھ یعنی ناپاک سمجھتے ہیں اور ان کے ساتھ کسی بھی طرح کا ربط ضبط بڑھانے کے خلاف ہیں۔ شادی بیاہ اور میل ملاپ تو دور کی بات، مسلمانوں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا اور کھانا پینا بھی انہیں ’’ناپاک‘‘ کرنے کے لئے کافی تھا۔ 23 مارچ 1940ء کے روز لاہور کے اقبال پارک میں تقریر کرتے ہوئے قائد اعظم نے بھی انہی الفاظ کا اعادہ کیا اور اعلان کیا کہ ہندو اور مسلمان دو الگ الگ مذہبی فلسفوں اور معاشرتی نظام سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کا تہذیب و تمدن ایک دوسرے سے مختلف بلکہ کئی جگہوں پر باہم متصادم ہے، اور ہندوستان کی گذشتہ ایک ہزار سالہ تاریخ اس حقیقت کو ثابت کرتی ہے۔

نظریۂ پاکستان کی جڑیں ، برصغیر کی تاریخ میں بہت گہری اتری ہوئی ہیں۔ برصغیر کے گذشتہ ہزاریئے کی تاریخ مسلمانوں اور ہندوؤں میں پائی جانے والی چپقلشوں سے عبارت ہے۔ ایک زمانے میں بالادستی حاصل کرنے کی لڑائی میدانِ جنگ میں لڑی گئی۔ یہاں ناکامی ہونے کے بعد ہندو مت نے چور دروازے کا سہارا لے کر اسلام میں جگہ بنانے کی کوشش کی۔ اسلام سے پہلے جتنے مذاہب ہندوستان میں آئے، سب کسی نہ کسی طور ہندو مت سے متاثر ہو کر اس کی ایک بگڑی ہوئی شکل بن گئے لیکن ہندوؤں کی تمام تر کوششوں کے باوجود اسلام ایسے اثرات سے پاک رہا۔ خواہ وہ بھگتی تحریک ہو یا اکبر کا دین الٰہی، ایسی ساری لہریں کچھ عرصہ گزار کر اپنی موت آپ مر گئیں اور اسلامی تہذیب و تمدن، ہندو تہذیب و تمدن سے جدا اور منفرد رہا۔ دونوں اقوام کو قریب لانے کی کوششیں کبھی کامیابی سے ہمکنار نہ ہو سکیں کیونکہ ان کے مابین پائے جانے والے اختلافات نہایت بنیادی نوعیت کے ہیں اور کسی بھی مقام پر ایک دوسرے سے میل نہیں کھاتے۔ مذہب ان کی زندگیوں کا مرکزی حصہ ہے، اور اگر دونوں اقوام اپنے اپنے مذہب کے مطابق زندگی گزارنا چاہتی ہیں تو پھر ان کا ایک ہونا کسی صورت ممکن نہیں۔

AIOU Solved Assignment Code 5438 Spring 2024

Q no 5.

جنوری 1902ء میں آل انڈیا محمڈن ایجوکیشن کانفرنس علی گڑھ کے تحت ایک علمی شعبہ قائم کیا گیا۔ جس کانام انجمن ترقی اردو تھا۔ مولانا شبلی نعمانی اس کے سیکرٹری رہے تھے۔ 1905ء میں نواب حبیب الرحمن خان شیروانی اور 1909ء میں عزیز مرزا اس عہدے پر فائز ہوئے۔ عزیز مرزا کے بعد 1912ء میں مولوی عبدالحق سیکرٹری منتخب ہوئے۔ مولوی صاحب اورنگ آباد (دکن ) میں ملازم تھے وہ انجمن کو اپنے ساتھ لے گئے اور اس طرح حیدرآباد دکن اس کا مرکز بن گیا۔ انجمن کے زیر اہتمام لاکھ سے زائد جدیدعلمی، فنی اور سائنسی اصطلاحات کا اردو ترجمہ کیا گیا۔ نیز اردو کے نادر نسخے تلاش کرکے چھاپے گئے۔ دوسہ ماہی رسائل، اردو اور سائنس جاری کیے گئے۔ ایک عظیم الشان کتب خانہ قائم کیا گیا۔ حیدرآباد دکن کی عثمانیہ یونیورسٹی انجمن ہی کی کوششوں کی مرہون منت ہے۔ اس یونیورسٹی میں ذریعہ تعلیم اردو تھا۔ انجمن نے ایک دارالترجمہ بھی قائم کیا جہاں سینکڑوں علمی کتابیں تصنیف و ترجمہ ہوئیں سرسید احمد خان نے 27 دسمبر، 1886ء كو محمڈن ایجوكیشنل كانفرنس كی بنیاد ركھی اس كانفرنس كا بنیادی مقصد مسلمانوں كی تعلیمی ترقی كے لیے اقدامات كرنا تھا۔ اس كا پہلا اجلاس علی گڑھ میں ہوا۔ كانفرنس نے تعلیم كی اشاعت كے لیے مختلف مقامات پر جلسے كئے۔ شہر اور قصبے میں اس كی ذیلی كمیٹیاں قائم كی گئیں۔ اس كانفرنس كی كوششوں سے مسلمانوں كے اندر تعلیمی جذبہ اور شوق پیدا ہوا۔ اس كانفرنس نے ملك كے ہر حصے میں اجلاس منعقد كئے اور مسلمانوں كو جدید تعلیم كی اہمیت سے روشناس كرایا۔ اس كانفرنس كے سربراہوں میں نواب محسن الملك، نواب وقار الملك، شبلی نعمانی اور مولانا الطاف حسین حالی جیسی ہستیاں شامل تھیں۔ محمڈن ایجوكیشنل كانفرنس كا سالانہ جلسہ مختلف شہروں میں ہوتا تھا۔ جہاں مقامی مسلمانوں سے مل كر تعلیمی ترقی كے اقدامات پر غور كیا جاتا تھا اور مسلمانوں كے تجارتی، تعلیمی، صنعتی اور زراعتی مسائل پر غور كیا جاتا تھا۔  آل انڈیا مسلم لیگ كا قیام بھی 1906ء میں محمڈن ایجوكیشنل كانفرنس كے سالانہ اجلاس كے موقع پرڈھاكہ كے مقام پر عمل میں آیا۔ محمڈن ایجوكیشنل كانفرنس كے سالانہ اجلاس كے موقع پر برصغیر كے مختلف صوبوں سے آئے ہوئے مسلم عمائدین نے ڈھاكہ كے نواب سلیم اللہ خاں كی دعوت پر ایك خصوصی اجلاس میں شركت كی۔ اجلاس میں فیصلہ كیا گیا كہ مسلمانوں كی سیاسی راہنمائی كے لیے ایك سیاسی جماعت تشكیل دی جائے۔ یاد رہے كہ سرسید نے مسلمانوں كو سیاست سے دور رہنے كا مشورہ دیا تھا۔ لیكن بیسویں صدی كے آغاز سے كچھ ایسے واقعات رونما ہونے شروع ہوئے كہ مسلمان ایك سیاسی پلیٹ فارم بنانے كی ضرورت محسوس كرنے لگے۔ ڈھاكہ اجلاس كی صدارت نواب وقار الملك نے كی۔ نواب محسن الملك; مولانامحمد علی جوہر٬ مولانا ظفر علی خاں٬ حكیم اجمل خاں٬ اور نواب سلیم اللہ خاں سمیت بہت سے اہم مسلم اكابرین اجلاس میں موجود تھے۔ مسلم لیگ كا پہلا صدر سر آغا خان كو چنا گیا۔ مركزی دفتر علی گڑھ میں قائم ہوا۔ تمام صوبوں میں شاخیں بنائی گئیں۔ برطانیہ میں لندن برانچ كا صدر سید امیر علی كو بنایا گیا۔

AIOU Solved Assignment Code 5438 Spring 2024

Q No 6.

   تاریخِ آزادی کے ہیرو، وطنِ عزیز کے بہادر فرزند، فداء ملک وملّت، سلطان فتح علی عرف سلطان ٹیپو (شہید) کے ایک مصاحب، سیّدمحمد علی نواب چنیاپٹن تھے۔ انہیں نواب محمد علی کے یہاں ۱۲۰۴ھ میں ایک لڑکا پیدا ہوا۔ باپ کے نام کی مناسبت سے احمدعلی نام رکھا گیا۔ مگر عجیب بات یہ ہے کہ اصل نام سے شہرت بہت کم ہوئی۔ پہلے ضیاء الدین عرف رہا، دلاورجنگ خطاب۔ اور جب یہ لڑکا عمر عزیز کی تقریباً چھ دہائیاں طے کرنے کے بعد جدوجہد آزادی کا علمبردار ہوا تو احمداللہ شاہ کہلانے لگا۔ رحمہ اللہ۔

            سیّد محمد علی، سیّد جلال الدّین عادل کے فرزند ارجمند تھے۔ سیّد جلال الدّین جو خاندانِ قطب شاہی (فرمانروائے گولکنڈہ) کی یاد گار(۳) تھے۔ ایک طرف چنیاپٹن کے رئیس اور نواب تھے تو دوسری جانب ایک باخدا بزرگ تھے جو اپنے زمانہ کے ولی اور قطب سمجھے جاتے تھے۔

تعلیم وتربیت اور طبعی رجحانات

            خاندانی عظمت کے بموجب آپ کی تعلیم وتربیت امیرانہ ہوئی اوراس زمانہ کے رواج کے مطابق علومِ دینی کے ساتھ فنونِ حرب کا بھی ماہر بنایا گیا۔ ہوش سنبھالا تو طبیعت کا میلان اوراد و وظائف کی طرف تھا۔ نماز، روزہ اوراحکامِ شریعت کے سخت پابند تھے۔ ہر عمل میں سُنّتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتّباع ضروری سمجھتے تھے۔ والدین سے ٹیپوسلطان کی شہادت اور سلطنت خداداد کی تباہی کا حال سُنا تو حکومت اورمال ودولت سے دل بیزار ہوگیا۔(۴)

سیاحت و بیعت

            جوانی کاآغاز تھا کہ سیاحت کاشوق ہوا۔ پہلے حیدرآباد گئے۔ پھر یورپ کاسفر کیا۔ انگلستان جاکر ملکہ وکٹوریہ کے مہمان ہوئے۔ وہاں سے واپس ہوکر عربی ممالک کا دورہ کیا۔ حج بیت اللہ شریف سے مشرف ہوئے۔ پھر ایران ہوکر چمن کے راستہ سے ایک عرصہ کے بعد ہندوستان پہنچے۔ یہاں ”سانبھر“ کے علاقے میں ڈیرے ڈال دئیے۔(۵)

            پھر مراحلِ سلوک طے کرنے اور رُوحانی کمالات حاصل کرنے کی تڑپ پیدا ہوئی حضرت قربان علی شاہ کی شہرت سن کر جے پور گئے۔ ریاضت ومجاہدہ اور چلّہ کشی کے انوار پہلے سے موجود تھے۔ بیعت نے فوراً ہی نسبت مشائخ کا کیف پیدا کردیا۔ حضرت قربان علی شاہ صاحب نے جس طرح رُوحانی فیوض وکمالات سے مالا مال کیا، اصلاح صوفیاء اور تنظیمِ مجاہدین کا فرض بھی آپ کے ذمہ کردیا، اور ہاں محفلِ سماع کی بھی اجازت دے دی۔(۶) بہرحال مولانا احمد اللہ شاہ صاحب جے پور سے ٹونک تشریف لے گئے نواب وزیرالدولہ سے مجلسیں گرم رہیں۔

            ٹونک کی آب وہوا آپ کے ذوقِ سماع کے موافق نہیں تھی۔(۷) مگر ذوقِ جہاد کے لئے سب سے موافق آب وہوا اسی ٹونک کی تھی۔(۸) جو حضرت سیّد احمد شہید کے پس ماندگان کا مرکز تھا اورابھی چند سال ہوئے، حضرت مولانا نصیرالدین صاحب دہلوی کا جہادی قافلہ، وزیرالدولہ کے دماغ کو سرشار کرتا ہوا یہاں سے گذرا تھا۔

            حضرت مولانا سیّد احمد اللہ شاہ صاحب ٹونک سے رُخصت ہوکر گوالیار پہنچے یہاں ایک بزرگ محراب (۹) شاہ قلندر تھے۔ ان کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اُن کے مشائخانہ اطوار نے آپ کے دل کو موہ لیا۔ یہ قلندر صاحب بھی عجیب تھے۔ دنیا ومافیہا سے بے خبر، مگر راہ ورسمِ انقلاب سے باخبر۔ ظالم فرنگی کے دشمن اور استخلاصِ وطن کے دلدادہ۔

            مولانا سیّداحمد اللہ شاہ صاحب نے قلندر صاحب کے حلقہٴ ارادت میں داخل ہونا چاہا تو داخلہ کی شرط یہ تھی کہ جہاد کی سوکھی رگوں میں تازہ خون دوڑائیں گے اور وطنِ عزیز کو انگریزوں سے نجات دلائیں گے۔ شاہ صاحب نے بسروچشم یہ شرط منظور کی اور سلسلہٴ قادریہ میںآ پ سے بیعت ہوکر خرقہٴ خلافت حاصل کرلیا۔(۱۰) یہ بتانا مشکل ہے کہ کتنے عرصہ آپ نے گوالیار میں قیام کیا۔ البتہ اس موقعہ پر یہ فراموش نہ ہونا چاہئے کہ تقریباً تیس سال پہلے جب حضرت سیّد احمد شہید رحمة اللہ علیہ جہاد کے لئے روانہ ہوئے تھے تو سب سے پہلے تقریباً دو ہفتہ تک آپ کا قیام یہیں رہا تھا۔ پھر راجہ ہندوراؤ اسی ریاست کے مدارالمہام تھے جن کے نام سیّد صاحب نے مرکزِ جہاد سے خط لکھ کر اُن کو جنگِ آزادی کے لئے اُبھاراتھا۔

دہلی مرکزِ سیاست اوراس کی موجودہ حالت

            جہادی قلندر حضرت محراب علی شاہ کے دستِ مبارک پر عہدِ جہاد کرنے کے بعد عزم وعمل کا وقت آیا تو قدرتی طور پر حضرت مولانا سیّداحمد اللہ شاہ صاحب کی نظر دہلی کی طرف اُٹھی کیونکہ:

            (۱) اگرچہ انگریزی اقتدار کا مرکز کلکتہ اوراس کا فورٹ ولیم تھا مگر ہندوستانیوں کی سیاست کا مرکز اب بھی دہلی تھا۔

            (۲) یہاں مغل سلاطین کا جانشین موجود تھا جو سیاسی لحاظ سے مفلوج و مجبور ہونے کے باوجود اُن بیشمار ہندوستانیوں کے جذبات پر حکمراں تھا جو مغلِ اعظم ہی کے کسی وارث کو سلطنت وحکومت کاصحیح مستحق سمجھتے تھے۔

            (۳) یہی دلّی تھی جس کی ولی اللّٰہی تربیت گاہ میں ”رُوحِ انقلاب“ نے جنم لیا تھا۔ جہاں شاہ عبدالعزیز صاحب کی تربیت گاہِ سیاسی میں وطنِ عزیز کو نجات دلانے کی تحریک پروان چڑھی تھی اوراُس نے اپنا دورِ شیرخوارگی پورا کیا تھا۔ جہاں جنگ حریت کے سب سے علمبردار سیداحمد شہید کو پرچم قیادت عطا ہوا تھا۔ جہاں سے چند سال پہلے مولانا نصیرالدین صاحب دہلوی کی زیرسیادت سرفروشانِ حریّت کا آخری قافلہ روانہ ہوا تھا۔

            (۴) یہی دلّی تھی جہاں بقول مولانا عبیداللہ سندھی اب بھی ولی اللّٰہی تحریک کی وہ مرکزی جماعت موجود تھی جس کی رہنمائی حضرت مولانا شاہ اسحاق صاحب اپنی ہجرت گاہ مکہ معظمہ سے فرمارہے تھے۔

            اس قسم کی متعدد وجوہات تھیں جن کی بناء پر مولانا سیّداحمد اللہ شاہ صاحب کا قدم سب سے پہلے دہلی کی سمت اُٹھنا ضروری تھا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ لیکن اس وقت کی صورتِ حال نے جو نزاکتیں پیدا کردی تھیں، اُن کا احساس مولانا سیّد احمداللہ شاہ صاحب کو گوالیار میں نہیں ہوسکا یا پوری طرح نہیں ہوسکا۔مثلاً:

            (۱) گذشتہ چالیس سال میں جس طرح دہلی حضرت سیّداحمد شہید، حضرت مولانا اسمٰعیل شہید، حضرت مولانا نصیرالدین دہلوی شہید، حضرت مولانا شاہ اسحاق صاحب رحمة اللہ علیہ وغیرہ کی تحریکات کا مرکز رہی۔ اس کا تقاضا تھا کہ بقول مولانا عبیداللہ سندھی:

”یہاں ریزیڈنٹ کی نگاہ بہت سخت ہو۔“

            (۲) شاطرانِ انگریز یہ طے کرچکے تھے کہ بہادرشاہ پر بادشاہت کے موجودہ طمطراق کو بھی ختم کردیا جائے۔ لال قلعہ جو عظمتِ ہندوستان کا آخری نشان سمجھا جاتا تھا، اس کو بہادر شاہ کے جانشین سے خالی کرالیا جائے۔ اس کے لئے جو تدبیریں عمل میں لائی جارہی تھیں اور جس طرح شاہزادوں سے ساز باز کا سلسلہ جاری تھا، اس کا یہی تقاضا تھا کہ ریزیڈنٹ کی نگاہیں سخت اور محتاط رہیں۔

            (۳) حضرت مولانا سیّداحمد اللہ شاہ صاحب کے دہلی تشریف لانے کا سال معین نہیں ہوسکا۔ قیاس(۱۱) یہ ہے کہ ۱۸۴۶/ یا ۱۸۴۷/ میں آپ دہلی تشریف لائے ہوں گے یعنی تقریباً ۱۲۶۴ھ۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ پنجاب میں سکھ حکومت کو ختم کیا جارہا تھا۔ جس سے پورے پنجاب میں بددلی پھیلی ہوئی تھی۔ علاقہ ملتان کی فوجیں زیر قیادت دیوان مول راج انگریزوں سے جنگ کی تیاریاں کررہی تھیں۔ پٹھانوں نے زیرقیادت سلطان محمد خاں و دوست محمد خاں علمِ بغاوت بلند کررکھا تھا۔ بالاکوٹ کا رئیس سیّدضامن شاہ انگریزوں کے دوست گلاب سنگھ مہاراجہ کشمیر سے برسرِپیکار تھا اور اُس کی امداد کے لئے مرکز صادق پور سے مجاہدین کا ایک دستہ مولانا ولایت علی صاحب کی زیر قیادت بالاکوٹ پہنچ چکا تھا اور شہادتِ مجاہدانہ کی پُرانی تمنائیں سرفروشی سے پوری کررہا تھا۔اور جیساکہ اسی سلسلہ کی تیسری جلد میں بیان کیاگیا ہے بقول مسٹر دیبی پرشاد مصنّف گلشنِ پنجاب، پورے ہندوستان بالخصوص شمال مغربی صوبہ (پنجاب وفرنٹیئر وکشمیر) میں غلغلہ مچ رہا تھا۔

            ان نزاکتوں کے علاوہ سیاسی مصلحتوں کا بھی تقاضا یہی تھا کہ جو تحریک موجودہ حالات کے مطابق چلائی جائے، اُس کا مرکز دہلی نہ ہو۔

            اسلامی جہاد کی نوعیت سے جو تحریک سیّداحمد شہید، مولانا اسمٰعیل شہید اوران کے بعد مولانا نصیرالدین صاحب دہلوی رحمة اللہ علیہ نے چلائی تھی، اس کی ناکامی ثابت ہوچکی تھی، اب ایک عوامی تحریک کی ضرورت تھی۔ دہلی اگرچہ مرکزِ سیاست تھی، مگر یہاں تحریکِ حریت ایک خاص حلقہ سے مخصوص تھی۔ یہ حضرت شاہ عبدالعزیز صاحب رحمة اللہ علیہ کے شاگردوں اورمریدوں کا حلقہ تھا۔ بے شک اس حلقہ کے اثرات پورے ہندوستان میں پھیلے ہوئے تھے مگر شاطرانِ برطانیہ نے وہابیت کے جس الزام سے حضرت سیّداحمد صاحب کی تحریک کو سرحد میں ناکام کیا تھا۔ جیسا کہ شاندار ماضی کی جلد دوم میں واضح کیاجاچکا ہے وہ الزام اگرچہ قطعاً بے بنیاد تھا مگر کچھ اپنوں کی ناعاقبت اندیشی اور زیادہ تر کلکتہ کے سرکاری دارالافتاء نے مسلسل پروپیگنڈہ کرکے اس بیس سال کے عرصہ میں اس الزام کو اس حد تک حقیقت کا درجہ ضرور دے دیا تھا کہ حضرت شاہ عبدالعزیز صاحب رحمة اللہ علیہ یا حضرت سیّداحمد شہید صاحب رحمة اللہ علیہ سے تعلق رکھنے والا حلقہ صرف سیاسی نہیں رہا بلکہ مذہبی نقطئہ نظر سے ایک مکتبہ خیال بن گیا تھا۔

            اب تدبّر اور سیاسی دُور اندیشی کا مطالبہ یہ تھا کہ آئندہ تحریک کی دعوت ایسے انداز سے دی جائے کہ جو عناصر اس مکتبہٴ خیال سے تعلق نہیں رکھتے وہ بھی تحریک سے وابستہ ہوں اور مکتبہٴ خیال کی حدبندی ان کی شرکت با قیادت کے راستہ میں حائل نہ ہوسکے۔ اس مصلحت کے پیش نظر حضرت مولانا سیّداحمد اللہ شاہ صاحب بہترین شخص تھے جن کی قدرت کے پوشیدہ اشاروں نے خود بخود دہلی کے سیاسی مدبّرین کے پاس پہنچا دیا تھا۔

دہلی کے بعد آگرہ

            شاہ جہاں آباد (دہلی) اوراکبر آباد (آگرہ) کا پُرانا رشتہ اگرچہ اب کمزور ہوچکا تھا مگر تعاون اوراعتمادِ باہمی کی رُوح ابھی فنا نہیں ہوئی تھی، اور اگرچہ چند سال پہلے آگرہ ملّی رجحانات اور قومی جذبات کے لحاظ سے ایک شہر خموشاں(۱۲) بن چکا تھا مگر جب سے وہ برطانوی صوبہ کا دارالحکومت بنا تھا اس میں پھر چہل پہل ہوگئی تھی اور ذی استعداد صاحبِ فکر علماء وفضلاء کا ایسا مجمع اس کو میسر آگیا تھا جس کی نظیر کوئی دوسرا شہرمشکل سے پیش کرسکتا تھا۔ ان علماء میں اگرچہ زیادہ وہ تھے جو حضرت مولانا شاہ عبدالعزیز صاحب قدس اللہ سرہ العزیز سے تلمذ اور (بالواسطہ یا بلا واسطہ) شاگردی کا تعلق رکھتے تھے۔ مگر غالباً ایسا کوئی بھی نہیں تھا جو ایک مکتبہٴ خیال کے پابند کی حیثیت سے حضرت شاہ عبدالعزیز صاحب یا حضرت سیّداحمدشہید سے وابستہ ہو۔

            مختصر یہ کہ مختلف مکاتبِ خیال اور مختلف سلسلہ تلمذ کے اور فضلاء یہاں رونق افروز تھے اور آگرہ گلہائے رنگارنگ کا گلدان بنا ہواتھا۔ ایک عوامی تحریک کا لالہ زار ایسا ہی گلستان بن سکتاتھا۔ دہلی کے اربابِ بصیرت نے اسی مصلحت سے آگرہ کو منتخب کیا اور حضرت مولانا سیّداحمد اللہ صاحب شہید کی عنانِ توجہّ دہلی کے آگرہ کی طرف منعطف کی۔

            لیکن آگرہ حضرت مولانا سیّد احمد اللہ شاہ صاحب کے لئے بالکل اجنبی شہر تھا۔ اس کے لئے ایک عرصہ درکار تھا کہ مولانا سیّداحمد اللہ شاہ صاحب آگرہ پہنچ کر اعتماد حاصل کریں اور وہاں کے سربراہوں اور کلیدی حضرات تک پہنچ سکیں۔

            حضرت مولانا مفتی صدرالدین صاحب جیسا اعلیٰ مدبّر جس نے حضرت سیّداحمداللہ شاہ صاحب کی سیاسی تگ و دو کے لئے آگرہ کا میدان منتخب فرمایا۔ آپ نے خود ہی اس کی ذمّہ داری بھی لی کہ حضرت مولانا شاہ احمداللہ صاحب جیسے ہی آگرہ پہنچیں، بلاکدوکاوش کلیدی حضرات تک اُن کی رسائی ہوجائے اور یہ اُن کا اعتماد حاصل کرلیں۔ چنانچہ حسبِ روایت مفتی انتظام اللہ صاحب شہابی:

مفتی انعام اللہ خان بہادر جو محکمہ شریعت کے مفتی رہ چکے تھے، اب سرکاری وکیل تھے۔ حضرت آزردہ (مفتی صدرالدین صاحب آزردہ) کے خط کے ذریعہ شاہ صاحب (مولانا احمداللہ شاہ صاحب) اُن کے یہاں آکر مقیم ہوئے۔ اُن کا گھر علماء کا مرکز بنا ہوا تھا۔ مفتی صاحب کے صاحبزادے مولوی اکرام اللہ صاحب ”تصویر الشعراء“ مریدہوئے۔

مجلسِ علماء

            علماء وفضلاء کرام کا یہ گلدستہ جس کی شیرازہ بندی اب تک علمی اورادبی ذوق نے کررکھی تھی، مولانا احمد اللہ شاہ صاحب کے پہنچنے کے بعد اُس میں سیاسی رنگ پیدا ہونا شروع ہوا، اورمجلس کی شکل میں اس اجتماع کی تشکیل کی گئی اس کے ارکان کی مختصر فہرست ملاحظہ ہو۔

            مولوی شیخ اعتقاد علی بیگ صاحب، مولوی امام بخش صاحب، سیّد باقر علی صاحب ناظم محکمہ دیوانی، مولوی نورالحسن صاحب، سیّدمراتب علی صاحب، مولوی خواجہ تراب علی صاحب، سیّد حسن علی صاحب، رحمت علی صاحب، مفتی ریاض الدین صاحب، مولوی غلام جیلانی صاحب، غلام مرتضی صاحب، شیخ محمد شفیع صاحب، مولوی عبدالصمد صاحب، مولوی منصب علی صاحب، مولوی محمد عظیم الدین حسن صاحب، رسول بخش صاحب، باسط علی صاحب، مومن علی صاحب، محمد قاسم صاحب دانا پوری، معین الدین صاحب، مولوی کریم اللہ خان صاحب صدرالصدور، قاضی محمد کاظم علی صاحب، تاج الدین صاحب، طفیل احمد صاحب خیرآبادی، مولانا غلام امام شہید، مفتی عبدالوہاب صاحب گوپامئوی، ڈاکٹر وزیرخاں صاحب، مولوی فیض احمد صاحب بدایونی، مفتی انعام اللہ صاحب۔

            یہ حضرات صدارت نظامت کے مختلف عہدوں پر فائز تھے، یا وکلاء تھے، جنھوں نے اس مجلس کی رُکنیت منظور کی، اور دامے درمے قدمے شاہ صاحب کی تائید و اعانت شروع کردی۔

حلقہٴ ارادت

            حضرت سیّد احمد شہید رحمة اللہ علیہ کے حالات شاندار ماضی جلد دوم میں گذرچکے ہیں۔ انہیں کا نمونہ حضرت مولانا سیّداحمد اللہ شاہ صاحب کے حالت میں بھی نظر آتا ہے۔ فرق یہ ہے کہ جو گرمی وہاں صرف ذکر اللہ سے پیدا کی جاتی تھی، شاہ احمد اللہ صاحب کے یہاں اس کے لئے ”سماع“ سے بھی کام لیا جاتاتھا۔(۱۳)

            بہرحال حضرت سیّداحمد اللہ شاہ صاحب کے حلقہٴ بیعت وارادت نے وسعت اختیار کی۔ محفلِ سماع خود ایک کشش رکھتی ہے۔ یہاں علم وفضل کے ساتھ قوتِ خطابت کا یہ عالم تھا کہ جہاں آپ کے وعظ کا اعلان ہوتا، ہندومسلمانوں کا بے پناہ ہجوم ہوجاتا۔ اب ایک وقت ذکر وشغل اورمراقبہ کا سلسلہ ہوتا، دوسرے وقت محفلِ سماع کی گرمجوشی۔(۱۴) کبھی عام جلسے ہوتے جن میں دس دس ہزار کا اجتماع ہوتا۔ سُننے والے بے قرار ہوجاتے۔ ہرشخص قربان اور فدا ہونے کا عہد کرتا۔ دوسرے تیسرے روز نمازِ عصر کے بعد قلعہ اکبر آباد کے میدان میں فنِ سپہ گری کی مشق کرائی جاتی۔ خود شاہ صاحب بہترین نشانہ باز تھے۔ تلوار کے ہاتھ بھی بہت جچے تُلے ہوتے تھے۔

            آپ کہیں تشریف لے جاتے تو مریدین کا ہجوم ساتھ ساتھ رہتا۔ آگے آگے ڈنکا بجتا۔ اس لئے آپ کو ڈنکے والا پیر یا ڈنکا شاہ کہا جاتا۔

            وہی آگرہ جس کی جامع مسجد کو جمعہ کے روز بمشکل بیس پچیس نمازی نصیب ہوتے تھے۔ اب اس کی ایک ایک مسجد میں سینکڑوں کا ہجوم ہوتا تھا۔ جو مسجدیں عرصہ سے ویران تھیں، اب اُن کی آبادی پر لوگ حیرت کرتے تھے۔آگرہ شہر اس طرح مسخر ہوگیاتو آپ نے مضافات کا قصد کیا۔ جہاں آپ پہنچتے، مریدین کی جماعت ساتھ رہتی اور ایک ہی دورہ میں اس کا رنگ بدل جاتا۔ عوام کو یاد ہو یا نہ یاد ہو، مگر انگریز کو حضرت سیّداحمدشہید کا دَور یاد تھا۔ حضرت مولانا سیّداحمداللہ شاہ کے اس دَور میں وہی رنگ دیکھا تو تیس سال پہلے کی تمام تاریخ سامنے آگئی۔

حضرت شاہ صاحب سے تعلق رکھنے والوں پر مقدمہ

            انگریزبہادر نے حضرت شاہ صاحب پرہاتھ نہیں ڈالا، یا بقول مولوی سیّد طفیل احمد صاحب مرحوم، پولیس نے اُن کو (مجسٹریٹ کے حکم پر) گرفتار کرنے سے انکار کردیا۔(۱۵) البتہ وہ جماعت جو انگریزوں سے ملازمت کا تعلق رکھتی تھی اوراب شاہ صاحب سے وابستہ ہوگئی تھی اور انہیں کے ذریعہ حضرت شاہ صاحب آگرہ میں قیام کرکے اپنا اثر جماسکے تھے، اُس پر رشوت کا مقدمہ چلادیا۔ مراد آباد کے جج مسٹرولسن مقدمہ کی سماعت کے لئے مقرر کئے گئے۔ حضرت شاہ صاحب اس وقت قصبات ومضافات کے دورہ پر باہر تشریف لے گئے تھے۔ آپ کو سفر ہی میں اس مقدمہ کا علم ہوا تو آپ نے فرمایا۔ یہ امتحان کی پہلی منزل ہے۔ گھبرائیں نہیں، انشاء اللہ کامیاب ہوں گے۔ کسی پر بھی کوئی آنچ نہیں آئے گی۔

            بہرحال مقدمہ شروع ہوا۔ پولیس نے گواہ پیش کئے۔ مگر یہ بناؤٹی گواہ بیکار ثابت ہوئے۔ خدا جانے پولیس نے کیا کہہ کر اُن کو تیار کیا ہوگا۔ مگر جب وہ اجلاس میں یہ دیکھتے کہ جس کے برخلاف وہ گواہی دینا چاہتے ہیں، وہ ایک باخدا عالمِ دین ہے تو گھبراجاتے اور بقول مفتی انتظام اللہ شہابی:

”جھوٹی گواہی دینے کی جرأت نہ ہوتی۔“

            بہرحال جوں توں کرکے ابتدائی عدالت میں سخت سخت سزائیں تجویز کی گئیں۔ مولوی غلام جیلانی وکیل صدر، مولوی غلام احمد شہید پیش کار اور مفتی سراج الدین پیش کار کو چار چار سال کی قید بامشقّت، مفتی محمد قاسم صاحب داناپوری مسل خواں کو تین سال مولوی بدرالحسن صاحب مسل خواں اورمولوی آل حسن منصف کو دو دو سال۔

            ایک اخبار ”سعدالاخبار“ نے اس خبر کو شائع(۱۶) کرتے ہوئے لکھا:

”دیکھنے کی بات یہ ہے کہ مولانا محمد قاسم داناپوری جن کا شمار اولیاء کرام میں ہے اور اُن کے ہزارہا مرید صاحبِ ریاضت ومجاہدہ ہیں، اُن کو رشوت سے متہم کیا جاتا ہے، تعجب ہے۔ دوسرے صاحب مولانا غلام امام شہید جو عاشقِ رسول کہلاتے ہیں، اُن کے بھی ہزارہامرید آگرہ حیدرآباد ومرادآباد میں ہیں، اُن پر بھی رشوت کا الزام ہے۔“

            بہرحال فوراً ہی اپیل دائر کیاگیا۔جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ سب حضرات بری کردئیے گئے۔ بقول حضرت شاہ صاحب کسی کابھی بال بیکا نہ ہوا۔

            خان بہادر مفتی انعام اللہ صاحب(۱۷) وکیل صدر جن کے نام شاہ صاحب حضرت مولانا مفتی صدرالدین صاحب آزردہ کا خط لائے تھے، جو سب سے پہلے حضرت شاہ صاحب کے میزبان بنے تھے، یہ بھی معطل کئے گئے۔الزام یہ تھا کہ مُشتبہ خطوط اُن کے یہاں سے برآمد ہوئے ہیں۔(۱۸)

آگرہ سے کانپور اور لکھنوٴ

            مولانا احمد اللہ شاہ صاحب آگرہ میں مقیم تھے کہ اودھ میں مولانا امیرعلی شاہ رحمة اللہ علیہ کی شہادت کا ہنگامہ پیش آگیا۔ آپ کو اس کی تفصیلات کا علم ہوا تو آپ نے فرمایا۔ ”اب ہمارے کام کا وقت آگیا۔“ چنانچہ آپ نے سفر کی تیاری شروع کردی۔ مریدین کا بھی ایک جم غفیر ساتھ ہولیا۔ اس طرح کہ ہر ایک مرید نے توشہ ساتھ لے لیا تھا اور گھربار کا معقول انتظام کردیا تھا۔ ماؤں نے بیٹوں کواجازت دی تھی، اور بیویاں شوہروں کو رخصت کررہی تھیں۔ ہر ایک کا دل مگن تھا۔ مرشد ساتھ ہے کوئی خطرہ نہیں ہے۔(۱۹)

            شاہ صاحب آگرہ سے روانہ ہوکر پہلے کانپور پہنچے۔ وہاں عظیم اللہ خاں وغیرہ سے ملاقاتیں رہیں۔ پھر آپ اُناؤ ہوتے ہوئے لکھنوٴ پہنچے۔ گھاس منڈی میں قیام کیا۔ وہیں مولانا فضل حق صاحب خیرآبادی سے ملاقات ہوئی۔ مفتی انتظام اللہ صاحب شہابی تحریر فرماتے ہیں:

”مولانا فضل حق صاحب خیرآبادی جو خالص سرکاری آدمی تھے اُن دنوں لکھنوٌ میں صدرالصدور تھے۔ کچھ دن گذرے تھے کہ مولوی عبدالرزاق صاحب فرنگی محلی کی تائید میں مولانا امیرعلی شاہ(۲۰) صاحب کے خلاف فتویٰ صادر کرچکے تھے۔ وہ (مولانا خیرآبادی) شاہ صاحب سے ملنے آئے۔ شاہ صاحب سے ایسی گفتگو ہوئی کہ گھر جاتے ہی صدرالصدوری سے استعفیٰ دیدیا اور الور چلے گئے اور انگریزوں کے جتنے خیرخواہ تھے، اُتنے ہی (۲۱) دشمن ہوگئے۔(۲۲)

            لکھنوٴ نے تقریباً چالیس سال پیشتر حضرت سیّد احمد شہید کا استقبال بھی بڑی شان سے کیا تھا۔ وہی روح وہاں بھی کارفرما تھی، اور اہلِ لکھنوٴ حضرت سیّد صاحب کے زمانہ کی بہ نسبت اب زیادہ زخم خوردہ ہوچکے تھے۔ انتہا یہ کہ اُن کا بادشاہ واجد علی شاہ جس کو انگریز خواہ کچھ بھی کہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ لکھنوٴ والوں کی آنکھ کا تارا اور باشندگانِ اودھ کی آزادی کا آخری نشان تھا، وہ بھی انتہائی ذلّت و خواری کے ساتھ اُن سے جُدا کردیاگیا تھا، یا جدا کیا جانے والا تھا۔

            بہرحال حضرت سیّدصاحب شہید کی طرح حضرت مولانا احمداللہ شاہ صاحب بھی مقبول اورمحبوب ہونے لگے اور باشندگانِ لکھنوٴ کی والہانہ وابستگی آپ سے دن بدن بڑھنے لگی۔ مگراس انتہائی نازک دَور میں کہ بارک پور والی فوج برخواست کی گئی تھی جس کے سپاہی زیادہ تر اودھ کے رہنے والے تھے۔ ادھر واجد علی شاہ کو معزول کرکے گرفتار کرلیاگیا تھا یا گرفتار کرنے کا منصوبہ تیار کیا جارہا تھا۔ حضرت مولانا احمداللہ شاہ صاحب جیسے انقلابی امام کا لکھنوٴ میں قیام کرنا خود شاہ صاحب کے لئے خطرناک تھا، اور تحریک کے لئے بھی تشویش ناک۔ اس لئے شاہ صاحب نے لکھنوٴ کا قیام مختصر کرکے فیض آباد کا رُخ کیا۔ اب شاہ صاحب نے تمام تکلفات برطرف کردئیے تھے اور بقول مولانا فتح محمد تائب لکھنوی:

نصاریٰ سے جو حکم پیکار تھا                  ہر ایک شخص سے اس کا اظہار تھا

            اس عریانی کا نتیجہ ظاہر تھا۔ایسٹ انڈیا کمپنی کے عمال نے آپ کو گرفتار کرنا چاہا۔ مگر عوام کے ہجوم اوراُن کی بے پناہ عقیدت کے باعث پولیس یہ جرأت نہ کرسکی، تو فوج سامنے آئی۔ حضرت شاہ صاحب اور آپ کے ساتھیوں نے مقابلہ شروع کردیا۔ مگر چونکہ فوج کا یہ اقدام دفعتہ تھا، شاہ صاحب اورآپ کے ساتھی پہلے سے تیار نہ تھے اس لیے یہ مقابلہ بھی ناکام ہی رہا۔ حضرت شاہ صاحب کسی فوجی کی تلوار کی ضرب سے بے ہوش ہوکر گرپڑے۔ آپ کو فوراً گرفتار کرکے جیل خانہ بھیج دیاگیا۔ آپ کے ساتھی بھی گرفتار کرلئے گئے۔

تحریکِ انقلاب ۱۸۵۷ء کا آغاز

            یہ ۱۸۵۶ء کے اواخر یا ۱۸۵۷ء کے شروع کا واقعہ ہے چند ماہ بعد ۱۰/مئی ۱۸۵۷ء کی طوفان انگیز تاریخ آئی جس نے پورے شمالی ہند کی زمین ہلادی۔ حضرت شاہ صاحب اس وقت جیل میں تھے۔ فیض آباد میں عنانِ قیادت ایک اور صاحب نے سنبھالی۔ اُن کا اسم گرامی مولانا سکندر شاہ صاحب فیض آبادی تھا۔ آپ نے جیل خانہ پردھاوا بول کر حضرت شاہ صاحب کو تو چھڑالیا لیکن خود انگریزی فوج کے ہاتھوں گرفتار ہوگئے۔ مگر مولانا احمد اللہ شاہ صاحب نے جھنڈے کو گرنے نہیں دیا۔ اپنی رہائی کے بعد پورے ہندوستان کی رہائی کے لئے پرچم لہرایا، اور جو فدایان وطن جمع ہوئے تھے اُن کو ساتھ لے کر لکھنوٴ کا رُخ کیا۔(۲۳)

            بقول مولانا عبدالحلیم شرر لکھنوی مرحوم:

جس طرح میرٹھ وغیرہ کے باغی سمٹ کر دہلی میں جمع ہوئے تھے اور ظفر کو ہندوستان کا شہنشاہ بنایا تھا، ویسے ہی الہ آباد اور فیض آباد کے باغی بھی ۱۸۵۷/ میں جوش و خروش کے ساتھ لکھنوٴ پہنچے۔ اُن کے آتے ہی یہاں کے بہت سے بے فکرے اُٹھ کھڑے ہوئے اور برجیس قدر کی بادشاہی قائم کردی۔ تھوڑی سی انگریزی فوج اور یہاں کے تمام یورپین عہدہ دارانِ مملکت جو باغیوں کے ہاتھ سے جاں بر ہوسکے ”بیلی گارڈ“ میں قلعہ بند ہوگئے۔ (گذشتہ لکھنوٴ)

            بہرحال مولانا شرر کے الفاظ استعمال کیجئے یا ان کو انقلاب پسند محبانِ وطن کہیے، تاریخی حقیقت یہ ہے کہ برجیش قدر جن کی عمر صرف دس سال تھی، بادشاہ(۲۴) بنائے گئے۔ اُن کی والدہ حضرت محل جو ایک بہادر خاتون تھیں، اُن کی ولی اور سرپرست مقرر ہوئیں۔ ناصرالدولہ علی محمد خاں عرف مموخاں وزیر اعظم یا مدارالمہام مقرر ہوئے، لیکن اس قیامت خیز دَور میں جس کے بل بوتے پریہ سب کچھ ہوا، وہ مولانا احمد اللہ شاہ صاحب تھے جن پر سُنّی اکثریت پورا اعتماد کرتی تھی۔

مقابلہ، ناکامی اور وجوہاتِ ناکامی

            بے شک کا نقشہ قائم ہوگیا۔ عام ہندو مسلمانوں نے دلوں کی گہرائیوں سے وفاداری کا عہد بھی اس حکومت سے کرلیا مگر جو مرض دہلی میں تھے، وہی بیماریاں لکھنوٴ کی فضا میں بھی موجود تھیں بلکہ اُن سے کسی قدر زیادہ۔

            یہاں شیعہ سُنّی کا مسئلہ بھی موجود تھا۔ اربابِ اقتدار کی جنگی نااہلیت بھی اپنا رنگ جمائے ہوئے تھی، اور مرزامغل کی طرح مموخاں کی ریشہ دوانیاں بھی احمد اللہ شاہ جیسے بہادر اور دیانت دار جرنیل کے راستہ میں ہر قدم پر رکاوٹ کے لئے موجود تھیں۔ نتیجہ ظاہر تھا۔ یعنی بہادرانہ معرکوں کے باوجود ناکامی۔ جس کی تفصیل کے لئے مستقل جلد کی ضرورت ہے۔

            مولانا احمد اللہ شاہ صاحب لکھنوٴ سے ہٹ کر شاہ جہان پور پہنچے۔ شاہزادہ فیروز، جنرل بخت خاں، تجمل حسین خاں رئیس فرخ آباد، جنرل اسمٰعیل خاں (فتح گڈھ)، نانا راؤ پیشوا، غرض تمام ہی سرغنہ جنھوں نے بار بار شکست اُٹھانے کے بعد بھی ہمت نہیں ہاری تھی اورجو پورے عزم کے ساتھ طے کرچکے تھے      ع

یا جاں رسد بجانا یا جاں زتن برآید

            یہ سب جمع ہوگئے۔ شاہ جہان پور میں جو معرکے ہوئے، اُن کا مختصر تذکرہ واقعات شہاہجہان پور کے سلسلہ میں پہلے گذرچکا ہے،اور جب یہاں بھی ناکامی ہوئی تو شاہ صاحب اپنے بچے کچھے ساتھیوں کے ساتھ قصبہ محمدی پہنچے اور یہاں ازسرِ نو تنظیم کی۔ ایک عارضی حکومت بھی قائم کرلی۔ جس کی کابینہ کے ارکان یہ تھے:

            جنرل بخت خاں                  وزیر جنگ

            مولانا سرفراز علی صاحب       قاضی القضاء (جیف جسٹس)

            ناناراؤ پیشوا                                   دیوان (وزیر مال)

            مولانا لیاقت علی صاحب الہ آبادی، ڈاکٹر وزیر خاں صاحب اکبرآبادی، مولانا فیض اللہ صاحب بدایونی، شاہزادہ فیروز شاہ ارکانِ حکومت۔

سکّہ زد برہفت کشور خادم محراب شاہ

حامیِ دین محمد احمداللہ بادشاہ

            پھر کیاہوا؟ تاریخ شاہ جہان پور اور صحیفہٴ زریں کے حوالہ سے مفتی انتظام اللہ شہابی تحریر فرماتے ہیں:

ابھی شاہ صاحب پوری طرح جمنے نہ پائے تھے کہ سرکالن کیمبل نے قصبہ محمدی پر حملہ کردیا۔ خوب خوب مقابلہ رہا۔ شاہ صاحب کے ہٹتے ہی محمود خاں(۲۵) معہ حضرت محل اور ناناراؤ، عظیم اللہ خاں اور بخت خاں وغیرہ نیپال کی طرف چلتے ہوئے۔

            لیکن شاہ صاحب نے پوائیں کا رُخ کیاجو بنڈیل کھنڈ اوراودھ کی سرحد پر شاہ جہان پور سے شمال مشرق تقریباً ۱۸ میل ہے۔ راجہ پوائیں اگر تعاون کے لئے آمادہ ہوجاتا تو شاہ صاحب کو پھر سانس لینے کا موقع مل سکتا تھا۔ مگر اُس نے غداری کی۔ اوّل وہ آپ سے گفتگو کے لئے آمادہ ہوا، اور جب شاہ صاحب گفتگو کے لئے پہنچے تو راجہ نے اپنی گڈھی کا پھاٹک بند کرلیا اور اُوپر سے گولیوں کی پوچھاڑ کرکے شاہ صاحب کو شہید کردیا۔ اب مفتی انتظام اللہ صاحب شہابی کا بیان ہے کہ:

راجہ بلدیوسنگھ نے سرمبارک جسم اطہر سے اُتارا، اور صاحب کلکٹر بہادر شاہ جہانپور کے سامنے پیش کردیا جو عرصہ تک کوتوالی پر لٹکا رہا۔ نعش کو آگ میں پھونک دیا۔ اس پر سرکار برطانیہ نے پچاس ہزار روپیہ نقد اور خلعتِ فاخرہ راجہ پوائیں کو عطا کیا۔ یہ واقعہٴ شہادت ۵/جون ۱۸۵۸/ مطابق ۱۳/ذی قعدہ ۱۲۷۵ھ کو پیش آیا۔ دریا پار محلہ جہاں آباد متصل احمد پور مسجد کے پہلو میں سردفن کردیاگیا۔ مولوی سیّد طفیل احمد صاحب (علیگ مصنف روشن مستقبل وحکومت خود اختیاری) نے کتبہٴ تاریخ نصب کرادیا۔(۲۶)

            شاہ صاحب کے متعلق جو لکھا گیا،اس کی تصدیق کے لئے چند انگریز موٴرخین کے بیانات ملاحظہ فرمائیے۔ چارلس نال لکھتا ہے:

ایک لمبا، لاغر مگر مضبوط آدمی، دُبلے جبڑے، لمبے پتلے ہونٹ، اُونچا بانسہ، بڑی بڑی آنکھیں، تیغ نما ابرو، لمبی داڑھی، سخت کالے بالوں کی زُلفیں دونوں کانوں پرپڑی رہتی تھیں۔

            چارلس نال حلیہ بیان کرنے کے بعد لکھتا ہے:

اودھ کے باغیوں کی تجاویز اور سازش کی تحقیق کی گئی تو معلوم ہوا کہ اس مولوی کوانگریزی حکام بحیثیت احمد شاہ فقیر اور صوفی عرصے سے جانتے تھے۔ شمال مغربی صوبجات میں ظاہرًا مذہبی تبلیغ کی خاطر دورہ کرچکے تھے۔ لیکن فرنگیوں کے لئے یہ راز ہی رہا۔

            اپنے سفر کے دوران وہ ایک عرصے تک آگرہ میں مقیم رہے۔ حیرت انگیز اثر شہر کے مسلم باشندوں پر تھا۔ شہر کے مجسٹریٹ ان کی جملہ نقل وحرکت پر نظر رکھتے تھے۔ عرصہ بعد یقین ہوگیا، کہ وہ برطانوی حکومت کے خلاف ایک سازش کررہے ہیں لیکن پھر بھی اُن کو کسی باغیانہ جرم میں ملوث نہ پایاگیا۔ وہ آزاد رہے۔ آخر کار جب بغاوت رونما ہوئی اور فیض آباد کے فوجیوں میں بھی یہ لوگ پہنچے تو یہ مولوی جو سابقاً غیرمنظم طریقے پر اپنے مریدوں کو اُبھار رہا تھا، گارڈ کی نگرانی میں تھا۔ ہنگامہ کرنے والوں نے اُن کو چھڑاکر اپنا سردار بنالیا۔ اس طرح مولوی صاحب ایک طاقت ور فوج کے سپہ سالار بن گئے۔اگرچہ کچھ عرصہ تک دوسرے باغی سرداروں کی طاقت چھپی رہی لیکن اس شخص کا اثر باغیوں پر بھرپور تھا لیکن یہ قابل آدمی تھا،اور ظلم کے دھبے سے پاک تھا جونانا صاحب کے انتقامی جوش کی خصوصیت تھی، اس سے یہ بالکل پاک صاف تھا۔ اس لئے برطانیہ بھی ایک حد تک ان کو اچھا اور قابل نفرت نہیں سمجھتی تھی۔(۲۷)

            جرنل ٹامسن جو ایک بہادر انگریز تھا اور ہنگامہٴ ۱۸۵۷/ میں شریک تھا، شاہ صاحب کی بابت لکھتا ہے:

مولوی احمد اللہ شاہ بڑی لیاقت وقابلیت رکھتا تھا۔ وہ ایسا شجاع تھا کہ خوف اُس کے نزدیک نہیں آتا تھا۔ یہ عزم کا پکا، ارادہ کا مستقل تھا۔ باغیوں میں اس سے بہتر کوئی سپاہی نہیں تھا۔ یہ فخر اسی کو حاصل ہے کہ اُس نے دو مرتبہ سرکالن کیمبل کو میدانِ جنگ میں ناکام رکھا۔ وہ بہ نسبت اور باغیوں کے خطاب شاہ کا زیادہ مستحق تھا۔ اگر محب وطن ہونے کے یہ معنی ہیں کہ اپنے ملک کی آزادی کے لئے جو غلطی برپا ہوگئی ہو، سازشیں کی جائیں اور لڑائیاں لڑی جائیں، تو مولوی یقینا اپنے ملک کا محب صادق تھا۔ اُس نے کبھی تلوار کومخفی اور سازشی قتل سے خون آلود نہیں کیا وہ بہادرانہ اور معجزانہ طورپر ان سے معرکہ آرا ہوا جنھوں نے اُس کا ملک چھین لیا تھا۔ دنیا کی ساری قومیں اس کو تعظیم و ادب کے ساتھ جو شجاعت و صداقت کے لئے لازمی تھیں اور جن کا مستحق تھا، اس کو یاد کریں گی۔(۲۸)

            فارسٹر کا ایک اور نذرانہٴ عقیدت ملاحظہ فرمائیے:

جن کو فیض آبادی مولوی کہا جاتاہے، اُن کے متعلق یہ بتادینا ضروری ہے کہ وہ عالم باعمل ہونے کی وجہ سے مولوی تھا۔ رُوحانی طاقت کی وجہ سے صوفی اور جنگی مہارت کی وجہ سے سپاہی اور سپہ سالار تھا۔ اس کی طبیعت ظلم سے پاک تھی۔ ہر انگریز اس کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔(۲۹)

AIOU Solved Assignment Code 5438 Autumn 2024

Q No 7.

محمد بن قاسم ؒ طائف میں ثقفی قبیلہ کے ایک مشہور خاندان کے یہاں ۷۲ ہجری میں پیدا ہوئے (آپ تابعین میں سے تھے)۔ عبد الملک بن مروان کے زمانہ خلافت ۷۵ ہجری میں حجاج بن یوسف کو مشرقی ریاستوں (عراق) کا حاکم اعلیٰ متعین کیا گیا۔ حجاج بن یوسف نے اپنے چچا قاسم کو بصرہ شہر کا والی متعین کیا۔ محمد بن قاسم ؒ ؒ اپنے والد کے ساتھ طائف سے بصرہ منتقل ہوگئے، اور وہیں تعلیم وتربیت پائی۔ حجاج بن یوسف نے اپنے خاص فوجیوں کی ٹرینیگ کے لئے واسط شہر بسایا۔ اس شہر میں محمد بن قاسم ؒ کی فوجی تربیت ہوئی۔ چنانچہ صرف ۱۷ سال کی عمر میں محمد بن قاسم ؒ ایک فوجی کمانڈر کی حیثیت سے سامنے آئے۔
محمد بن قاسم ؒ سندہ کے متعلق بہت سنا کرتے تھے۔ خلفاء راشدین کے زمانے میں بھی اس علاقہ میں جنگیں ہوئیں۔ حضرت امیر معاویہؓ کے عہد خلافت ۴۰ ہجری میں مکران علاقہ پر فتح حاصل ہوئی۔
۸۸ہجری میں جزیرہ یاقوت (سیلان) کے بادشاہ نے عربوں سے اچھے تعلق قائم کرنے کے لئے ایک جہاز عراق کے لئے روانہ کیا، جسمیں یتیم اور بیوہ مسلم عورتیں سوار تھیں۔ جب یہ جہاز سندہ کے بندرگاہ (دیبل) سے گزراتو سندہ کے کچھ لوگوں نے اس جہاز کو لوٹ لیا۔ حجاج بن یوسف نے سندہ کے بادشاہ سے جہاز اور مسلم عورتوں کی رہائی کا مطالبہ کیا۔ مگر اس نے رہائی کرنے سے انکار کردیا۔ حجاج بن یوسف نے دو مرتبہ لشکر کشائی کی ، مگر ناکامی ہوئی۔ جب حجاج بن یوسف کو یقین ہوگیا کہ مسلم عورتیں اور فوج کے جوان دیبل کی جیلوں میں بند ہیں، اور سندہ کا بادشاہ عربوں سے دشمنی کی وجہ سے ان کو چھوڑنا نہیں چاہتاہے، تو حجاج بن یوسف نے سندہ کے تمام علاقوں کو فتح کرنے کے لئے ۹۰ ہجری میں ایک بڑے لشکر کو محمد بن قاسم ؒ کی قیادت میں سندہ روانہ کیا۔ محمد بن قاسم ؒ نے صرف ۲ سال میں اللہ کے فضل وکرم سے ۹۲ ہجری تک سندہ کے بے شمار علاقے فتح کرلئے۔ ۹۲ ہجری میں سندہ کے راجہ داہر کی قیادت میں سندھی فوج سے فیصلہ کن جنگ ہوئی ، جسمیں سندہ کا راجہ مارا گیا، اور محمد بن قاسم ؒ کی قیادت میں مسلمانوں کو فتح ہوئی۔ غرض صرف ۲۰ سال کی عمر میں محمد بن قاسم ؒ فاتح سندہ بن گئے۔ ۹۵ ہجری تک سندہ کے دیگر علاقے حتی کے پنجاب کے بعض علاقے محمد بن قاسم ؒ کی قیادت میں مسلمانوں نے فتح کرلئے۔
محمد بن قاسم ؒ نے سندہ پر فتح حاصل کرنے کے بعد جونہی ہند (موجودہ ہندوستان) کی حدود میں داخل ہونے کا ارادہ کیا، نئے بادشاہ سلیمان بن عبدالملک کا حکم پہونچا کہ فوراً عراق واپس آجاؤ۔ ولید بن عبد الملک کے بعد سلیمان بن عبد الملک خلیفہ بنے۔ نئے خلیفہ سلیمان بن عبدالملک اور محمد بن قاسم ؒ کے خاندان کے ساتھ تعلقات اچھے نہیں رہے۔ محمد بن قاسم ؒ کو یقین تھا کہ میرا عراق واپس جاناموت کو دعوت دینا ہے۔ سند ھ کے لوگوں اور فوج کے ذمہ داروں نے محمد بن قاسم ؒ کو واپس جانے سے منع کیا۔ لیکن محمد بن قاسم ؒ نے خلیفہ کے حکم کی نافرمانی کرنے سے انکار کیا اور عراق واپس گئے۔ سلیمان بن عبد الملک نے بغض وعناد میں محمد بن قاسم ؒ کو جیل میں بند کردیا۔ مختلف طرح سے تکلیفیں دیں۔ غرض ۹۵ ہجری میں فاتح سند محمد بن قاسم ؒ صرف ۲۳ سال کی عمر میں اللہ کو پیارا ہوگیا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *