Free AIOU Solved Assignment Code 451 Spring 2024

Free AIOU Solved Assignment Code 451 Spring 2024

Download Aiou solved assignment 2024 free autumn/spring, aiou updates solved assignments. Get free AIOU All Level Assignment from aiousolvedassignment.

Course: Talukat-e-Aama (451)
Semester: Spring, 2024
Assignment No 1

ANS 01

تعّلقات عامہ کو فن سمجھیے، سائنس جانیے یا کاروبار تسلیم کیجیے اس کی درجہ بندی خواہ کیسے ہی کیجیے ایک بات طے ہے کہ  میدانِ عمل کا بنیادی کام خادم و مخدوم یعنی خدمت کرنے والوں اور خدمت کرانے والوں کے درمیان باہمی مفاہمت کا پل تعمیر کرنا ہے تاکہ دونوں طبقات کے مابین خوش گوارتعلق سے کاروبارِ حیات ہمواری کے ساتھ چلتا رہے۔ خادم و مخدوم کی ان دو اصطلاحات کی ذیل میں حکومتیں، نیم سرکاری ادارے، سیاسی جماعتیں، معاشرتی فلاح کا کام کرنے والی تنظیمیں اور ادارے، درس گاہیں ، مراکز صحت، تجارتی و صنعتی ادارے اور ان کی خدمت و مصنوعات سے مستفید ہونے والے سب شامل ہیں۔ خدمات و مصنوعات مہیا کرنے والے، خدّام کے طبقے میں آتے ہیں اور ان خدمات و مصنوعات سے فائدہ اٹھانے والے عامتہ النّاس، مخدوم کے طبقے میں آتے ہیں۔ تمام تنظیموں، اداروں اور محکموں کی خواہش یہ ہوتی ہے کہ عوام سے ان کے تعّلقات خوش گوار رہیں بہ الفاظِ دیگر رائے عامہ ان کے حق میں ہموار رہے۔ کیوں کہ رائے عامہ کی ہمواری کے بغیر کسی ادارے، محکمے یا تنظیم کا ہمواری سے چلنا ممکن نہیں ہوتا۔ اسی غرض سے مفاہمت کے پل کی ضرورت پیش آتی ہے اور یہ ضرورت پوری کرنا اب ایک فن، ایک پیشہ اور ایک خصوصی مہارت بن چکی ہے، اسی فن اور پیشے کا میدانِ عمل، تعلقات عامہ کا شعبہ کہلاتا ہے۔

تعلقات عامہ میں کیا کرنا ہوتا ہے؟ کرنا یہ ہوتا ہے کہ محکموں، اداروں یا تنظیموں کی طرف سے عوام کویہ بتایا جائے کہ وہ انھیں اپنی کیا خدمات، اشیا اور مصنوعات پیش کرتے ہیں۔ ان خدمات، اشیا، مصنوعات کی نوعیت، معیار اورافادیت کیا ہے وغیرہ وغیرہ ۔۔۔دوسری طرف خود خدمات، اشیا اورمصنوعات پیش کرنے والے ادارے اورتنظیموں کو یہ بتانا ہوتا ہے کہ وہ جو خدمات و مصنوعات اوراشیا عوام کے سامنے پیش کررہے ہیں ان کے بارے میں صارفین کا ردِ عمل کیا ہے۔ اس طرح دو طرفہ ابلاغ سے مفاہمت کا وہ پل تعمیر ہوتا ہے جس سے اداروں کو اپنی خدمات و مصنوعات کو رائے عامہ کی پسند کے سانچوں میں ڈھالنے کا موقع ملتا ہے اور ان کی کار گزاری میں بہتری اور پیش رفت آتی ہے۔

اداروں، تنظیموں اور محکموں۔۔۔اوررائے عامہ میں مفاہمت کی اس ضرورت اور اس کی تکمیل کے لیے پیشہ ورانہ مہارت کو اب روز افزوں طور پر تسلیم کیا جانے لگا ہے اور ہرتنظیم ،ادارہ یا محکمہ اپنی اپنی بساط کے مطابق تعلقاتِ عامہ کے لیے درجنوں افراد پر مشتمل ایک وسیع شعبے سے لے کر ایک فرد تک عملہ ضرور رکھتا ہے، جسے تعلقاتِ عامہ کی ذمہ داری تفویض کی جاتی ہے ۔

تعلقاتِ عامہ کے شعبے میں کارگزار لوگوں کا بنیادی کام ابلاغ ہی ہے۔ ابلاغ کے اس عمل کے لیے تعلقاتِ عامہ کا کارکن ویسے ہی ذرائع اور وسیلے اختیار کرتا ہے جو ابلاغ کے دوسرے میدانوں میں استعمال ہوتے ہیں مثلاً مطبوعہ مواد مہیا کرنے کے لیے وہ تصویروں سے مزین خبری اعلامیے جاری کرسکتا ہے، اپنے ادارے کی طرف معلوماتی کتابچے، تعارف نامے، ہینڈبل، فولڈر، کیٹلاگ، ڈائریاں، کیلنڈر اور مطبوعہ خبرنامے یا خانگی رسائل و جرائد اور رپورتاژ وغیرہ تیار کرتا ہے۔ سمعی مواد کے طور پر ریڈیو پروگرام ، تقریروں، مذاکروں، جلسوں اور مباحثوں کا اہتمام کرتا ہے۔ بصری مواد مہیا کرنے کے لیے مظاہروں ، نمائش ، فلموں، سلائیڈوں، دستاویزی فلموں، ثقافتی تقریبوں، پریڈوں وغیرہ کے انعقاد کاانتظام کرتا ہے۔ غرض ابلاغ کا ہر حربہ استعمال میں لاتا ہے۔ تعلقاتِ عامہ اورتشہیر مترادف اصطلاحات نہیں ہے۔ تشہیر ،تعلقات عامہ کا ایک وسیلہ ہوسکتی ہے، بجائے خود اسے تعلقات عامہ کا عمل نہیں سمجھنا چاہیے ۔
پیشے میں داخلے کی اہلیت اور پیشہ ورانہ تربیت کے ادارے

چوں کہ تعّلقاتِ عامہ کے شعبے کا بنیادی کام ابلاغ ہے، اوراس شعبے کے کارکن بھی خبری مواد کی تحریر، رائے عامہ کی تشکیل اور اخبار و رسائل کے اجرا جیسے کام کرتے ہیں، اس لیے اس پیشے میں تربیت یافتہ صحافی عام خواندہ لوگوں کے مقابلے میں زیادہ کامیاب رہتے ہیں اور بالعموم اس پیشے میں ذرائع ابلاغ میں کارگزار رہنے والے لوگ ہی کام کرتے نظر آتے ہیں۔ پاکستان کی ان سب جامعات میں جہاں ابلاغِ عامہ یا صحافت کا شعبہ موجود ہے وہاں ابلاغِ عامہ کے نصاب کے جزو کے طور پر تعلقاتِ عامہ کی پیشہ ورانہ تعلیم و تربیت کا اہتمام بھی ہوتا ہے۔ چناں چہ سرکاری محکموں میں تعلقاتِ عامہ کے افسروں اورکارکنوں کی تقرری کے لیے ابلاغِ عامہ کی ڈگری کی شرط اب عمومی طور پر اُن اسامیوں کے اشتہارات میں نظر آنے لگی ہے۔ نجی شعبے کے اداروں اور تنظیموں میں افسران تعلقاتِ عامہ کی اسامیوں پرترجیحی طور پر تجربہ کار صحافیوں ہی کا تقرر عمل میں آتا ہے ۔

شّخصی خصوصیات

تعلقاتِ عامہ کے میدانِ عمل میں آنے والوں میں جوشخصی خصوصیات مطلوب ہوتی ہیں ان میں اچھی شخصیت، تحریر و تقریر پرعبور ، اچھی، دل کش اور دلچسپ گفتگوکرنے کی اہلیت، اپنے ادارے یا محکمے و شعبے سے گہری وابستگی، وفاداری، مجلسی آداب سے آگاہی، ذمہ داری، خوش لباسی اور شگفتہ مزاجی وہ اوصاف ہیں جو ترجیحی طو رپر مطلوب ہوتے ہیں ۔

کام کی نوعیت اور حالاتِ کار

بڑے اداروں میں جہاں تعلقاتِ عامہ کے الگ شعبے اورنظامتیں قائم ہیں اور ان میں ایک وسیع عملہ کار گزار ہوتا ہے، وہاں کچھ لوگ دفتروں میں بیٹھ کر کام کرتے ہیں اور کچھ کارکن اخبارات کے دفاتر اور دیگر پبلک مقامات پر فیلڈ میں کار گزار ہوتے ہیں۔ دفتر میں بیٹھنے والے مطبوعہ، بصری اورسمعی موادکی تیاری کا کام کرتے ہیں۔ اعلامیے، ہینڈ بل، بروشر، کتابچے وغیرہ تیار کرتے ہیں یا خبر ناموں کی تیاری کا کام کرتے ہیں اور جو لوگ فیلڈمیں کام کرتے ہیں، وہ رائے عامہ کے ترجمانوں، ذرائع ابلاغ کے کلیدی افراد، اعلیٰ سرکاری وغیر سرکاری حکام ، ممتازشخصیات سے ملاقاتیں کرتے ہیں۔ تقریروں، مباحثوں، جلسوں، مذاکروں، ثقافتی تقریبات، مظاہروں، نمائشوں وغیرہ کے انعقاد کا اہتمام کرتے ہیں۔ چھوٹے اداروں میں جہاں ایک ہی افسر تعلقاتِ عامہ ہوتا ہے، اسے دفتر کے اندر اور دفتر کے باہر سب جگہ کام کرناپڑتا ہے۔

بعض ادارے افسران تعلقات عامہ کے ذریعے ایسے کام کرانے کی کوشش بھی کرتے ہیں جو اخلاقاً مناسب نہیں ہوتے مثلاً افسرانِ تعلقاتِ عامہ اداروں کے اعلیٰ حکام ذاتی تشہیر کا کام لیتے ہیں یا اپنے ادارے کے مستقل اشتہارات کے عوض نشرواشاعت کا ناقص مواد خبرو ں کی صورت میں اخبارات میں چھپوانے کے لیے دباؤڈالتے ہیں یااخبار نویسوں کو مادّی فوائد پہنچا کران سے غلط کام لیتے ہیں۔ ایسی سرگرمیاں تعلقاتِ عامہ کی پیشہ ورانہ اخلاقیات کے منافی ہوتی ہیں ۔

حالاتِ کار،مشاہرے اور مواقع

تعلقاتِ عامہ کے شعبے میں گزشتہ چالیس برسوں میں حیرت انگیز ترقی ہوئی ہے۔ قیامِ پاکستان کے وقت نجی اورسرکاری شعبے میں مختلف محکموں اور دفتروں میں افسرِ تعلقاتِ عامہ کا کوئی تصور نہیں تھا۔ صرف صوبائی اور مرکزی حکومتوں کے محکمہ ہائے اطلاعات تھے مگر اب اضلاع کے صدر مقامات تک ضلعی انتظامیہ کو افسر اطلاعات یاتعلقاتِ عامہ کی خدمات مہیا کی گئی ہیں۔ہر کارپوریشن اورخود مختار ادارے میں تعلقاتِ عامہ کا الگ عملہ یا شعبہ موجود ہے۔ نجی شعبے میں بھی بڑے اداروں اورتنظیموں نے تعلقاتِ عامہ کے شعبے کی اہمیت اور افادیت کوتسلیم کرکے تعلقاتِ عامہ کے پیشہ ور کارکنوں کی خدمات حاصل کرنا شروع کردی ہیں اس طرح ابلاغ عامہ کے اس ذیلی شعبے میں حالاتِ کار اور مواقع رفتہ رفتہ بہتر ہورہے ہیں اور فروغ پا رہے ہیں۔ پی آئی اے ، اسٹیل مل، شپنگ کارپوریشن، کراچی پورٹ ٹرسٹ، میٹروپولیٹن کارپوریشنوں جیسے اداروں میں تعلقات عامہ کی الگ نظامتیں قائم ہیں جن میں عملے کی تعداد اچھی خاصی ہوتی ہے۔ چھوٹے محکموں اوردفتروں میں بھی ایک ایک افسر اطلاعات کی گنجائش پیدا کرنا لازمی ہوتا جارہا ہے۔ بڑے نجی اداروں میں افسران تعلقات کو دی جانے والی مراعات اور مشاہرے اتنے پرکشش ہوتے ہیں کہ کہنہ مشق اورپرانے صحافی اپنا برسوں کا کیریئر چھوڑ کر تعلقاتِ عامہ کے پیشے میں منتقل ہورہے ہیں۔ صوبائی حکومتوں کے محکمہ ہائے اطلاعات سے افسراطلاع کا تقرر سترہویں گریڈمیں ہوتا ہے۔ افسر اطلاعات سے اوپر بالترتیب اسسٹنٹ ڈائریکٹر ، ڈپٹی ڈائریکٹر تعلقات عامہ اور ڈائریکٹر جنر ل تعلقاتِ عامہ کے مدارج ہوتے ہیں۔ ان مدارج کے لیے بالترتیب 19,18 اور 20 گریڈ مخصوص ہیں۔ مرکزی محکمہ اطلاعات میں افسر اطلاعات، اسسٹنٹ ڈائریکٹر، ڈائریکٹر، ڈائریکٹر مجاز اطلاعِ عامہ اور پرنسپل افسر کے پانچ مدارج ہیں جو 16 گریڈسے شروع ہوکر 20 گریڈ پر ختم ہوتے ہیں۔

AIOU Solved Assignment Code 451 Spring 2024

ANS 02

تعلقات عامہ کا ماہر (پبلک ریلیشن اسپیشلسٹ) اپنے کلائنٹ یا کمپنی کے مثبت امیج کو اُجاگر کرنے اور اسے قائم رکھنےکے لیے عوام الناس سے ابلاغ کرتاہے۔ اس کا م کے لیے وہ میڈیا کے مختلف ذرائع (میڈیاآئوٹ لیٹس) استعمال کرتاہے۔یہ میڈیا آئوٹ لیٹس کسی کمپنی کے اپنے بھی ہوسکتے ہیں یا پھر معاوضے ادا کرکے دوسرے میڈیا کو بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ تعلقات عامہ (پی آر) میں منصوبہ بندی، میل جول، لوگوں کو مشغول کرنا، ان سے تعلقات بنائے رکھنا، ان کی خوشی اور غم میں ساتھ رہنا، اپنا امیج بہتر کروانا، بااثر لوگوں سے مؤثر رابطہ رکھنا وغیرہ شامل ہے۔ تعلقات عامہ کے ماہر کا کام دفتر میں بیٹھنے سے زیادہ دفتر سے باہر ہوتا ہے۔ یہ ذمے داری نہیں بلکہ ایک طرز زندگی ہے، جس میں اپنی ساکھ (گڈ ول) کو بہتر سے بہتر کرنا ہوتا ہے۔

پبلک ریلیشن یا تعلقات عامہ ایک ایسا پیشہ ہے جس میں تخلیقیت، تعاون اور کچھ ہٹ کر کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ جب کوئی پبلک ریلیشن کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد عملی زندگی میں آتا ہے تو اسے بہت سے مشوروں سے نوازا جاتا ہے،جن پر عمل کرکے وہ اپنی مہارت میں اضافہ کرتے چلا جاتا ہے۔

پی آر آفیسر کی ذمہ داریاں

٭ مطبوعہ مواد مہیا کرنے کے لیے تصویروں سے مزین خبری اعلامیے جاری کرنا۔

٭ اپنے ادارے کی طرف سےمعلوماتی کتابچے، تعارف نامے، ہینڈبل، فولڈر، کیٹلاگ، ڈائریاں، کیلنڈر اور مطبوعہ خبرنامے یا ادارے کے رسائل و جرائد اور رپورٹ وغیرہ تیارکرنا۔

٭ آڈیو اور ویژیول مواد کے طور پر ریڈیو، ٹی وی پروگرام ، تقریروں، مذاکروں، جلسوں اور مباحثوں کا اہتمام کرنا۔

٭ بصری مواد مہیا کرنے کے لیے مظاہروں، نمائش، فلموں، سلائیڈوں، دستاویزی فلموں، ثقافتی تقریبوں، پریڈوں وغیرہ کے انعقاد کاانتظام کرنا۔

٭ آجکل چونکہ سوشل میڈیا کا دور ہے تو اس حوالے سے سماجی تعلقات کے پلیٹ فارمز جیسے فیس بک، انسٹا گرام اور ٹوئٹر وغیرہ کو استعمال میں لانا یا اپنے ادارے کی ایپ ڈویلپ کروانا یا پھر فیس بک پیج کو اَپ ڈیٹ رکھنا بھی شعبہ تعلقات عامہ کے ذمے ہوتاہے ۔

٭ سوشل میڈیا پر کمپنی کےحوالے سے صارفین کے فیڈ بیک یا آراء کی نگرانی کرنا۔

٭ بحیثیت ماہرِ تعلقات عامہ آپ کو خبری مواد کی تحریر، رائے عامہ کی تشکیل اور اخبار و رسائل کے اجرا جیسے کام بھی کرنے پڑ سکتے ہیں ۔

٭ دیگر ذمہ داریوں میں ادارے کے اندر ملازمین کے درمیان ابلاغ یا اطلاعات کی فراہمی کے لیے میموز نکالنا وغیرہ بھی شامل ہیں۔

انفرادی خصوصیات

پبلک ریلیشن یا تعلقات عامہ کے میدان میں آنے والوں کو اعلیٰ شخصیت، تحریر و تقریر پر دسترس، عمدہ اور دلچسپ گفتگوکرنے کی اہلیت، اپنے ادارے یا محکمے سے گہری وابستگی، وفاداری، مجلسی آداب سے آگاہی، ذمہ داری، خوش لباسی اور شگفتہ مزاجی جیسی صفات سے مزین ہونا چاہئے۔ یہ اوصاف ادارے اور عوام میں پی آر آفیسر کوہر دلعزیز شخصیت بنادیتے ہیں۔

ماہر بننے کے مشورے

اگر آپ تعلقات عامہ کے ماہر بننا چاہتے ہیں تو درج ذیل عوامل کو ذہن میں رکھنا ہوگا۔

مہارت

تعلقات عامہ کے ماہر کے طور پر آپ کی ذمہ داری ایک فوجی کی طرح ہوتی ہے، جسے ہر وقت تیار رہنا پڑتاہے۔ اس کے ساتھ آپ کو مختلف یا پیچیدہ صورتحال کو سنبھالنے کے لیے ابلاغ کا دانشمندانہ استعمال کرنا ہوتا ہے۔

نیٹ ورکنگ

تعلقات عامہ میں بہتر اور خوشگوار تعلقات قائم کرناہی کامیابی کی کنجی ہے۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کا پیغام سنا جائے تو اس ضمن میں میڈیا میں موجود اہم ادارو ں سے اپنے بہتر پیشہ ورانہ تعلقات قائم کرنا ہوں گےتاکہ وہ آپ کے پیغام کو ترجیحی دیں اور اسے وسیع پیمانے پر عوام تک پہنچا سکیں۔

مسائل حل کرنےکی صلاحیت

اگر ذرائع ابلاغ آپ کے لوگوں یا ادارے کی مثبت انداز میں کوریج نہیں کرتا، تو آپ کو اس مسئلے کا خوش اصلوبی سے حل نکالنا ہوگا۔ اس صورتحال میں کرائسس مینجمنٹ اہم کردار ادا کرتی ہے، آپ کو اس تنقید یامنفی پروپیگنڈے کو فوری طور پر ختم کرنے کے لیے اقدامات کرنے ہوتے ہیں۔

تحریری ابلاغ

تعلقات عامہ کے ماہر کو ہر قسم کی تحریر لکھنے یا لکھوانے پر دستر س ہونی چاہئے، یہ آپ کی اہم ذمہ داری ہے۔ بہتر تحریری ابلاغ سے ہی آپ اپنی ساکھ بہتر بناسکتےہیں اور عوام تک پہنچ سکتے ہیں۔

عوامی تقریر

ایک شخص جو کسی بھی امیج کو قائم یا بہتر کرنے کے پیچھے کار فرما ہے، اسے اپنے افسران یا کمپنی کے شراکت داروں کے سامنے بات کرنے کا ہنر آنا چاہئے۔ پی آر اسپیشلسٹ کمپنی کا چہرہ ہوتے ہیں، اسی لئے انہیں ہر وقت کسی بھی ایشویا مسئلے پر بات کرنے کے لیے تیار رہنا چاہئے۔

AIOU Solved Assignment 1 Code 451 Spring 2024

ANS 03

ذرائع ابلاغ کی بے شمار اقسام ہیں اور روز بروز اضافہ ہو رہا ہے ذرائع ابلا غ میں وہ تمام ذرائع شامل ہیں جن کے ذریعے ہم اپنی بات دوسروں تک پہنچاتے ہیں ،اردو میں ذرائع ابلاغ اور انگریزی میں اس کو میڈیا کہتے ہیں،اس میں پرنٹ میڈیا ،الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا شامل ہیں۔

(1مطبوطہ ذرائع ابلاغPrint media :تحریر کا آغاز انسان کے آغاز کے ساتھ ہی شروع ہوا ہے اور تحریر و تصویر کو اپنے خیالات کے اظہار اور دوسروں کو ترغیب دینے کے لیے زمانہ قدیم سے استعمال کیا جا رہا ہے۔[11]

قرآن جس میں فرمایا گیا: وَكَتَبْنَا لَهٗ فِي الْاَلْوَاحِ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ[12]

“اور ہم نے اس کے لیے تختیوں پر سب کچھ لکھ دیا”

حضرت موسیؑ کو پتھر کی تختیوں پر احکام شریعت عطا کی گئی موہن جودڑو اور ہڑپہ کے نوادرات سے تحاریر ملی ہیں ۔ بابل اور نینوا کے شہروں کی کھدا ئی کے دوران تحریری اجزاء ملے ہیں۔ دنیا میں خیال قلمبند کرنے کے لیے تصویر اور تحریر کا استعمال کیا گیا ۔ پھر وقت کے ساتھ تحریروں کو چھاپا جاتا ۔ یوں حروف کی چھپائی شروع ہوئییورپ ،براعظم پاک و ہند میں۱۵۵۰ء کے بعد چھاپہ خانہ اور یہ ترقی کرتے کرتے اخبارات اور رسائل کی صورت اختیار کرتا چلا گیا۔[13]

اخبارات و رسائل وغیرہ چلتے پھرتے مدارس ہوتے ہیں اور ابلاغ کا بہترین ذریعہ بھی۔

الیکٹرونک میڈیا:

ابلاغ کی دوسری مؤثر ترین صورت الیکٹرونک میڈیا ہے ۔ یعنی ایسا ابلاغ جو برقی تاروں کے ذریعےپیغام ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچائے ۔۱۸۵۷ء سے اس کا آغاز ہوا اور میں۱۰۲۷ءمیں ٹیلی ویژن کی صورت میں واضح شکل سامنے آئی اور الیکٹرونک میڈیاکا سفر ٹیلی گرام ،ٹائپ رائٹر، ریڈیو ، ٹیلی فون ،ٹیلیویژن اور کمپیوٹر پر ختم نہیں ہوا موبائل ،انٹرنیٹ اورI.Pad کی صورت میں جا ری و ساری ہے۔اور یہ ابلاغ کے تیز ترین اور تیز رفتار ذرائع ابلاغ ہیں جو لمحوں کے اندر خبر کو پوری دنیا میں پھیلاتے ہیں جسکی وجہ سے پوری دنیا گلوبل ویلج میں بدل چکی ہے۔الیکٹرانک میڈیا نے لوگوں کی عمومی معلومات میں غیر عمومی اضافہ کیا ہے ان کی زندگیوں میں انقلاب برپا کر دیا ہے اور اس کے اندر انٹرنیٹ سب سے زیادہ اہم ایجاد ہے ۔[14]

آج کا دور سائنس اور ٹیکنالوجی کا دور ہے دنیا میں نت نئی ایجادات ،روزمرہ کا معمول بن گیا ہے جس کے نتیجے میں زندگی کے تمامشعبوں میں غیر معمولی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں اور آج کے دور میں ذرائع ابلاغ کو ہر امیرغریب کے گھر پہنچا دیا گیا ہے۔

ٹیلی ویژن :

دسویں صدی کی ایجادات میں ٹیلی ویژن سب سے موثر اور اہم ایجاد ہے جس کی وسیع اثر انگیزی سے اختلاف ممکن نہیں۔ ٹیلی ویژن نے جہاں لوگوں کی عمومی معلومات میں غیر معمولی اضافہ کیا وہاں ان لوگوں کی زندگیوں میں مغربی تہذیب و تمدن کو بھی بہت زیادہ فروغ دیا ہے ۔ [15]

ریڈیو:

ویڈیو فلم اور ٹیلی ویژن جدید ذرائع ابلاغ ہیں اور کسی نہ کسی صورت میں ایک دوسرے کے ساتھ مربوط بھی ہیں ،ریڈیو پروپگنڈہ کے لیے اہم سمجھا جاتا رہا ہے، آ ج بھی ریڈیو ایک مؤثر ذریعہ ابلاغ ہے۔[16]

انٹرنیٹ:

انٹرنیٹ ذرائع ابلاغ کی ایک ترقییافتہ شکل ہے اور ایک انتہائی تیز رفتار سروس بھی ،آج کے دور کی اہم ٹیکنالوجی کمپیوٹر کا ایک عالمگیر نیٹ ورک ہے جو مختلف انداز میں بے شمار معلو مات مہیا کرتا ہے۔ میل کے ذریعے دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک متین اشکال تصاویر چند سیکنڈ میں پہنچ جاتی ہیں ۔[17]

دور جدید مواصلات میں انقلاب کا دور ہے پیغامات کی آزادانہ اور فوری ترسیل انٹرنیٹ کے بنیادی نکات ہیں۔[18]

اخبارات و رسائل:

ذرائع ابلاغ میں اخبار منفرد حیثیت کی حامل ہے،ان کا کردار بھی بہت اہمیت کا حامل ہے۔اخبار صرف خبریں ہی شامل

نہیں کرتا بلکہ ان کی تشریح بھی کرتا ہے،رسائل و اخبارات چلتے پھرتے مدارس ہوتے ہیں ان کے ذریعے عوام تہذیب سے واقف ہوتے ہیں ،نیز تعلیم و تربیت،اصلاح و تبلیغ زیادہ تر انہی سے ہوتی ہے،اِن کے ذریعے فاصلے سکڑ جاتے ہیں،دور دراز کی اقوام ایک دوسرے کے قریب آ جاتی ہیں۔[19]

تاریخ میں دیکھیں تو ابلاغ کے لیے تحریر کا سہارا ہی لیا گیا ، تاریخ میں سب سے پہلے قرآن پاک تحریری صورت میں لکھا گیا اور قرآن میںبھی آتا ہے : اِنَّ هٰذَا لَفِي الصُّحُفِ الْاُوْلٰى صُحُفِ اِبْرٰهِيْمَ وَمُوْسٰى[20]

کتابیں:

کتاب کا لفظ کتب سے نکلا ہے اور انگلش میںbookکا لفظ استعمال ہوتا ہے۔عربی میں صحیفہ کہتے ہیں ۔کتاب دنیا میں مختلف نظریات کے پرچار اور علم و ادب کے پھیلانے میں اہم مقام رکھتی ہے ۔دنیا میں جتنے قبیلے وجود میں آئے یا آئندہ آئیں گے کتاب انہیں محفوظ رکھنے اور مستقل دستاویزات کی حیثیت دینے میں ہمیشہ اہم مقام رکھے گی۔

مساواتِ مرد و زن کا غلط تصور:

ایک تو آزادی نسواں اور مساواتِ مرد و زن کا نعرہ لگ چکا ہےلیکن اس نعرے کی تشہیر و ترویج میں ذرائع ابلاغ نے اہم کردار ادا کیا،قوموں کی تباہی کے لیے عورت کو اِس کے منصب سے ہٹا کر نائٹ کلبوں اور میڈیا کی زینت بنا دیا گیا ہےعورتوں کی بے شمار NGOs بن چکی ہیں،میڈیا نے عورت کو گمراہ کیا ہوا ہے

جرائم میں اضافہ:

پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا نے ہمیشہ جرائم کی خاطر خواہ تشہیر کر کے اِس میں اضافہ ہی کیا ہے۔الیکٹرانک میڈیا جرائم کی تشہیر میں اہم کردار ادا کرتا ہے،مثلاً ایک فلم II child play نے دو سے دس سال کے بچوں پر اتنا گہرا اثر کیا کہ انہوں نے فلمی ہیرو کی مانندایک شخص کو فلمی انداز میں قتل کیا۔[

جنسی بے راہ روی میں اضافہ:

میڈیا کے ذریعے جنسی تعلیم اور جنسی تربیت دی جاتی ہے،جس کے بعد بچے اور بچیاں گمراہی کے راستے میں چل پڑتی ہیں۔

غیر سرکاری تنظیموں کا منفی کردار:

غیر سرکاری تنظیموں کے قیام کا ظاہری مقصد ضرورت مندوں کی مدد کرنا ہوتا ہے لیکن اس کی آڑ میں بے حیائی اور فحاشی کو فروغ دیا جاتا ہے۔[40]

مذہبی یلغار میں ذرائع ابلاغ:

اسلام اور مسلمانوں کے خلاف پرو پیگنڈا کیا جاتا ہے،مغرب کے electric media نے مسلمانوں کو دہشتگرداور بنیاد پرست کے روپ میں پیش کیا ہے ،مسلمانوں کو غلط کردار میں دکھایا جاتا ہے،داڑھی والے اور برقع والی خاتون کو Negative کردار میں دکھایا جاتا ہے۔28 فروری 2006ء میں ٹی وی پر پروگرام میں دکھایا گیا کہ پاکستانی بچوں پر طنز کیا گیا کہ وہ ایک مسلمان ملک میں رہتے ہیں ،لہذٰا وہ دہشتگرد بنیں گے اچھے انسان نہیں۔[41]

دینی مدارس کے خلاف پرو پیگنڈا کیا جاتا ہے تا کہ مسلمانوں کے ذہن میں مذہب کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا ہوں۔میڈیا کے ذریعے حمایت کی تبلیغ کی جاتی ہے۔امریکہ اور یورپ میں پھیلے مراکز عیسائیت کی تبلیغ کی پلانگ کر رہے ہیں تا کہ میڈیا کے ذریعے عیسائی تعلیمات کی اشاعت کی جائے۔[42]آج کے دور میں ذرائع ابلاغ کے ذریعے مسلمانوں کے معاشرتی سیٹ اپ کو بدلنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔اس سیلاب کا رخ ہمارے گھروں کی طرف ہے۔عورت کو گھر سے نکال کر پردے سے آزاد کر کے مساوات مرد و زن کی تحریکوں سے مسحور ہو کر اسلامی معاشرت کے بنیادی ادارے (خاندان) کو تباہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔یہ ہے مغرب کی تہذیبی سامراج کی فتح کردہ اور مسحور کردہ فوج(مغرب پسند خواتین) جو اسلامی تہذیب کے پاسداروں کے خلاف دشمن کے ساتھ ہو کر معرکہ آزاد ہے۔[43]آج عورت کو ماڈلنگ کے نام پر سٹیج اور اشتہارات کی زینت بنایا جا رہا ہے۔ہم یورپ کی نقالی میں عورت کو کھلونا بنا رہے ہیں۔ریڈیو،ٹیلی ویثرن،کمپیوٹر،کیبل ٹی وی،ہوم ریڈیو،سیٹلائیٹ اور انٹرنیٹ نے دنیا میں نشریات کا جال پھیلا دیا ہے۔وسیع و عریض دنیا گھر کے آنگن اور بیڈ روم میں سمٹ کر آگئی ہے،آج گھر کی کھڑکیوں سے پورے عالم کا نظارہ کیا جا سکتا ہے۔جہاں علوم و فنون سائنس تعلیم و تفریح مہیا کرتے ہیں، وہاں پر انسانی جذبات اور احساسات پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں۔(دیوبند راسّر،عوامی ذرائع ابلاغ،ترسیل اور تعمیر و ترقی،قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان ،وزارت ترقی انسانی وسائل)[44]بہت زیادہ ٹی وی دیکھنے والے بچوں کے اندر نافرمانی،ماں باپ کے ساتھ بدتمیزی کرنا،وقت کا ضیاع کرنا جیسی عادات پیدا ہو جاتی ہیں۔میڈیا کی وجہ سے ہر شخص مصروف نظر آتا ہے۔کسی کے پاس کسی کے لیے وقت نہیں۔ڈرامے دیکھنے کے لیے وقت نکل آتا ہے۔ معاشرتی ماحول کے اندر ہر وقت تبدیلی واقع ہو رہی ہےاور سماجی رویوں پر میڈیا نظر انداز ہو تا ہے۔

AIOU Solved Assignment 2 Code 451 Spring 2024

ANS 04

تعلقات عامہ آپ کے کاروبار کی شبیہہ استوار کرنے کا ایک عمدہ طریقہ ہے۔ یہاں تک کہ اگر آپ کا کاروبار اچھی طرح سے قائم ہے تو ، ابھی کوئی نیا وقت شروع کرنے کا وقت نہیں ہے۔ آپ کے تعلقات عامہ کی حکمت عملیوں کے لئے منصوبہ بنانا آپ کو اپنے برانڈ کی پوزیشننگ کو فائدہ اٹھانے اور اپنے اہداف کو حاصل کرنے کے راستے پر رکھے گا۔

عوامی تعلقات کا ایک کامیاب منصوبہ بنانے کے ل 10 10 اقدامات یہ ہیں:

  1. عوامی تعلقات کے اہداف کا تعین کریں۔ یہ اہداف آپ کی ضرورت سے کم یا زیادہ سے زیادہ ہوسکتے ہیں۔ بس اپنے کاروبار کے مجموعی اہداف اور مشن کے مطابق رہنا یقینی بنائیں۔ ان اہداف کی مثالوں میں آپ کے برانڈ کی شبیہہ کو بہتر بنانا یا آپ کے کاروبار کے ذریعہ منعقدہ واقعات میں شرکت میں اضافہ شامل ہے۔
  2. اپنے ہدف کے سامعین کو جانیں۔ طے کریں کہ آپ کو کون سے گروپس کے ساتھ بات چیت کرنے کی ضرورت ہے۔ آپ کے کاروبار میں کون شامل ہونے کی ضرورت ہے؟ آپ کو کس کی مدد کی ضرورت ہے؟ آپ کے کاروبار سے متعلق امور سے کون متاثر ہوگا؟ کس کے پاس آپ کے ساتھ تعلقات سے فائدہ اٹھانا یا کھونے کے لئے کچھ ہے؟
  3. اپنے سامعین کو مقاصد دیں۔ اس عمل کے نہیں بلکہ آپ کے آخری نتیجے کے سلسلے میں سوچیں۔ جب آپ اپنے سامعین سے گفتگو کرتے ہو تو ، مخصوص مطلوبہ نتائج کے لحاظ سے الفاظ کے مقاصد ، اور آپ جو سمجھتے ہو وہ ممکن ہے۔ ہر مقصد کو سامعین ، نتائج ، حصول کی سطح (٪) اور ٹائم فریم کا حوالہ دینا چاہئے۔ اس پر غور کریں کہ آپ کے ناظرین کو آپ کی تنظیم ، مصنوع ، اجرا ، یا اس کا سبب سمجھنا چاہئے۔
  4. ہر مقصد کے لئے حکمت عملیمنصوبہ بندی میں ، غور کریں کہ آپ اپنے مقاصد کی سمت کام کرنے کے چیلنج سے کس طرح رجوع کریں گے۔ یہاں کی حکمت عملی میں مواصلات کے طریقے ، پیغامات پہنچانے اور آپ کے مقصد تک پہنچنے سے متعلق دیگر سرگرمیاں شامل ہیں۔ یہ حکمت عملی بہت سے مقاصد کو انجام دے سکتی ہے کیونکہ آپ کے پاس ممکنہ طور پر کسی مقصد کے لئے متعدد حکمت عملی ہوں گی اور کچھ حکمت عملی کئی مقاصد کی تکمیل کرسکتی ہے۔
  5. ہر حکمت عملی کے حربے۔ اس پر غور کریں کہ آپ اپنی حکمت عملیوں کو انجام دینے اور مقاصد کی تکمیل کیلئے اپنے وسائل کو کس طرح استعمال کریں گے۔ ممکن ہے کہ آپ کے پاس حکمت عملی کے مطابق کئی حربے ہوں گے۔
  6. منصوبے کی سرگرمیاں۔ اپنے منصوبے کے ایک حصے کے طور پر ، اپنے حربوں کے تحت مخصوص سرگرمیاں شامل کریں جن میں حکمت عملی طے کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ منصوبے کے اس حصے کی سرگرمیوں میں مواصلات کے طریقے شامل ہیں جو آپ استعمال کریں گے۔
  7. تشخیص کے ذریعے اپنے آپ کو مطلع کریں۔ اپنے آپ سے پوچھیں کہ کیا آپ محتاط پیمائش اور مشاہدے کے ذریعے اپنے مقاصد تک پہنچ رہے ہیں۔ عوامی آراء اور آراء پر غور کریں ، چونکہ یہ آپ کو اپنی حکمت عملی کی تاثیر پر ایک مختلف نقطہ نظر پیش کرے گا۔
  8. ماد .ے سے فرق پڑتا ہے۔ اپنے منصوبے میں بتائے گئے ہتھکنڈوں کو عملی جامہ پہنانے کے لئے جو چیز درکار ہے اس کا تعین کریں اور حاصل کریں۔
  9. بجٹ بنائیں۔ اس بات کو یقینی بنائیں کہ آپ کا تعلقات عامہ کا منصوبہ بجٹ بنا کر بینک نہیں توڑتا ہے۔ اس بات کا یقین کریں کہ جیب سے باہر کے اخراجات ، عملے کا وقت ، نقل و حمل ، تصاویر ، مواد وغیرہ شامل کریں۔
  10. ٹائم ٹیبل اور ٹاسک لسٹ کے ساتھ کام پر رہیں۔ ٹائم ٹیبل اور ٹاسک لسٹ بنانا آپ کو ٹریک کرنے میں مدد کرے گا کہ کون کون اور کب کرتا ہے۔ آپ اپنے پروجیکٹ کی آخری تاریخ سے آگے کی منصوبہ بندی کرنے کا انتخاب کرسکتے ہیں یا شروعاتی تاریخ سے آگے بڑھا سکتے ہیں۔

AIOU Solved Assignment Code 451 Autumn 2024

ANS 05

علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی پرنٹ اور الیکٹراک میڈیا میں کام کرنے والے صحافیوں کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کو مزید نکھارنے کے لئے عنقریب تین ماہ دورانیہ کے مختلف پیشہ ورانہ کورسزشروع کرے گی ۔ شعبہ ابلاغ عامہ کے مطابق یہ کورسز وائس چانسلر ٗ پروفیسر ڈاکٹر شاہد صدیقی کی خصوصی ہدایت پر متعارف کئے جارہے ہیں۔ شعبہ ماس کمیونکیشن نے اِن کورسز کے مندرجات تیار کرلئے ہیں۔

تعّلقات عامہ کو فن سمجھیے، سائنس جانیے یا کاروبار تسلیم کیجیے اس کی درجہ بندی خواہ کیسے ہی کیجیے ایک بات طے ہے کہ  میدانِ عمل کا بنیادی کام خادم و مخدوم یعنی خدمت کرنے والوں اور خدمت کرانے والوں کے درمیان باہمی مفاہمت کا پل تعمیر کرنا ہے تاکہ دونوں طبقات کے مابین خوش گوارتعلق سے کاروبارِ حیات ہمواری کے ساتھ چلتا رہے۔ خادم و مخدوم کی ان دو اصطلاحات کی ذیل میں حکومتیں، نیم سرکاری ادارے، سیاسی جماعتیں، معاشرتی فلاح کا کام کرنے والی تنظیمیں اور ادارے، درس گاہیں ، مراکز صحت، تجارتی و صنعتی ادارے اور ان کی خدمت و مصنوعات سے مستفید ہونے والے سب شامل ہیں۔ خدمات و مصنوعات مہیا کرنے والے، خدّام کے طبقے میں آتے ہیں اور ان خدمات و مصنوعات سے فائدہ اٹھانے والے عامتہ النّاس، مخدوم کے طبقے میں آتے ہیں۔ تمام تنظیموں، اداروں اور محکموں کی خواہش یہ ہوتی ہے کہ عوام سے ان کے تعّلقات خوش گوار رہیں بہ الفاظِ دیگر رائے عامہ ان کے حق میں ہموار رہے۔ کیوں کہ رائے عامہ کی ہمواری کے بغیر کسی ادارے، محکمے یا تنظیم کا ہمواری سے چلنا ممکن نہیں ہوتا۔ اسی غرض سے مفاہمت کے پل کی ضرورت پیش آتی ہے اور یہ ضرورت پوری کرنا اب ایک فن، ایک پیشہ اور ایک خصوصی مہارت بن چکی ہے، اسی فن اور پیشے کا میدانِ عمل، تعلقات عامہ کا شعبہ کہلاتا ہے۔

تعلقات عامہ میں کیا کرنا ہوتا ہے؟ کرنا یہ ہوتا ہے کہ محکموں، اداروں یا تنظیموں کی طرف سے عوام کویہ بتایا جائے کہ وہ انھیں اپنی کیا خدمات، اشیا اور مصنوعات پیش کرتے ہیں۔ ان خدمات، اشیا، مصنوعات کی نوعیت، معیار اورافادیت کیا ہے وغیرہ وغیرہ ۔۔۔دوسری طرف خود خدمات، اشیا اورمصنوعات پیش کرنے والے ادارے اورتنظیموں کو یہ بتانا ہوتا ہے کہ وہ جو خدمات و مصنوعات اوراشیا عوام کے سامنے پیش کررہے ہیں ان کے بارے میں صارفین کا ردِ عمل کیا ہے۔ اس طرح دو طرفہ ابلاغ سے مفاہمت کا وہ پل تعمیر ہوتا ہے جس سے اداروں کو اپنی خدمات و مصنوعات کو رائے عامہ کی پسند کے سانچوں میں ڈھالنے کا موقع ملتا ہے اور ان کی کار گزاری میں بہتری اور پیش رفت آتی ہے۔

اداروں، تنظیموں اور محکموں۔۔۔اوررائے عامہ میں مفاہمت کی اس ضرورت اور اس کی تکمیل کے لیے پیشہ ورانہ مہارت کو اب روز افزوں طور پر تسلیم کیا جانے لگا ہے اور ہرتنظیم ،ادارہ یا محکمہ اپنی اپنی بساط کے مطابق تعلقاتِ عامہ کے لیے درجنوں افراد پر مشتمل ایک وسیع شعبے سے لے کر ایک فرد تک عملہ ضرور رکھتا ہے، جسے تعلقاتِ عامہ کی ذمہ داری تفویض کی جاتی ہے ۔

تعلقاتِ عامہ کے شعبے میں کارگزار لوگوں کا بنیادی کام ابلاغ ہی ہے۔ ابلاغ کے اس عمل کے لیے تعلقاتِ عامہ کا کارکن ویسے ہی ذرائع اور وسیلے اختیار کرتا ہے جو ابلاغ کے دوسرے میدانوں میں استعمال ہوتے ہیں مثلاً مطبوعہ مواد مہیا کرنے کے لیے وہ تصویروں سے مزین خبری اعلامیے جاری کرسکتا ہے، اپنے ادارے کی طرف معلوماتی کتابچے، تعارف نامے، ہینڈبل، فولڈر، کیٹلاگ، ڈائریاں، کیلنڈر اور مطبوعہ خبرنامے یا خانگی رسائل و جرائد اور رپورتاژ وغیرہ تیار کرتا ہے۔ سمعی مواد کے طور پر ریڈیو پروگرام ، تقریروں، مذاکروں، جلسوں اور مباحثوں کا اہتمام کرتا ہے۔ بصری مواد مہیا کرنے کے لیے مظاہروں ، نمائش ، فلموں، سلائیڈوں، دستاویزی فلموں، ثقافتی تقریبوں، پریڈوں وغیرہ کے انعقاد کاانتظام کرتا ہے۔ غرض ابلاغ کا ہر حربہ استعمال میں لاتا ہے۔ تعلقاتِ عامہ اورتشہیر مترادف اصطلاحات نہیں ہے۔ تشہیر ،تعلقات عامہ کا ایک وسیلہ ہوسکتی ہے، بجائے خود اسے تعلقات عامہ کا عمل نہیں سمجھنا چاہیے ۔
پیشے میں داخلے کی اہلیت اور پیشہ ورانہ تربیت کے ادارے

چوں کہ تعّلقاتِ عامہ کے شعبے کا بنیادی کام ابلاغ ہے، اوراس شعبے کے کارکن بھی خبری مواد کی تحریر، رائے عامہ کی تشکیل اور اخبار و رسائل کے اجرا جیسے کام کرتے ہیں، اس لیے اس پیشے میں تربیت یافتہ صحافی عام خواندہ لوگوں کے مقابلے میں زیادہ کامیاب رہتے ہیں اور بالعموم اس پیشے میں ذرائع ابلاغ میں کارگزار رہنے والے لوگ ہی کام کرتے نظر آتے ہیں۔ پاکستان کی ان سب جامعات میں جہاں ابلاغِ عامہ یا صحافت کا شعبہ موجود ہے وہاں ابلاغِ عامہ کے نصاب کے جزو کے طور پر تعلقاتِ عامہ کی پیشہ ورانہ تعلیم و تربیت کا اہتمام بھی ہوتا ہے۔ چناں چہ سرکاری محکموں میں تعلقاتِ عامہ کے افسروں اورکارکنوں کی تقرری کے لیے ابلاغِ عامہ کی ڈگری کی شرط اب عمومی طور پر اُن اسامیوں کے اشتہارات میں نظر آنے لگی ہے۔ نجی شعبے کے اداروں اور تنظیموں میں افسران تعلقاتِ عامہ کی اسامیوں پرترجیحی طور پر تجربہ کار صحافیوں ہی کا تقرر عمل میں آتا ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *