Free AIOU Solved Assignment Code 427 Spring 2024

Free AIOU Solved Assignment Code 427 Spring 2024

Download Aiou solved assignment 2024 free autumn/spring, aiou updates solved assignments. Get free AIOU All Level Assignment from aiousolvedassignment.

Course: Social Studies (427)
Semester: Spring, 2024
ASSIGNMENT No. 1

ANS 01

1

اردو میں ہر شعری اصناف اپنی مخصوص ہیئت کی بنا پر پہچانی جاتی ہے اور چند اپنے مخصوص موضوع کی وجہ سے ایک منفرد شناخت رکھتی ہے ۔موضوع کی بنا پر شناخت رکھنے والی اصناف میں مرثیہ، شہر آشوب ،واسوخت وغیرہ ہےں وہ اصنافِ سخن جن کی شناخت موضوع اور ہیئت دونوں سے ہوتی ہے ان کو ہم موضوع اور ہیٔتی اصناف کا نام دیں گے جن میں مثنوی ،قصیدہ شامل ہیں اور وہ شعری اصناف جو صرف اپنی مخصوص ہیئت کی وجہ سے پہچانی جاتی ہےں انہیں ہیٔتی اصناف کہتے ہیں جن میں غزل ، رباعی شامل ہیں وہ اصناف جنہیں ہم موضوع کی وجہ سے پہنچانتے ہیں انہیں موضوع اصناف کا نام دیں گے۔ شعری اصناف کی ایک قسم وہ بھی ہے جو نہ موضوع پر منحصر ہے اور نہ ہیئت پر بلکہ وہ مخصوص تہذیبی و تمدنی مزاج کی وجہ سے ایک صنف کا درجہ رکھتی ہے وہ ہے نظم اور گیت ،اس کے علاوہ دو اصناف شعر ایسی بھی ہیں جو منفرد ہونے کے علاوہ دیگر اصناف کے لیے بھی بطور ہیئت استعمال ہوتی رہی ہیں جن میں غزل اور مثنوی آجاتی ہےں بہت سی نظمیں غزل کی ہیئت میں لکھی گئی ہیں جس کی اچھی مثالیں اقبالؔ کے کلام میں مل جاتی ہیں ۔اور مثنوی کی ہیئت میں بھی نظمیں اور ہجوئویں لکھی گی ہیں ۔ اصنافِ شعر کی دوسری مروج ہیٔتوں میں ترکیب بند، ترجیع بند، مستزاد، قطعہ ،مسمط ہیں مسمط کوئی علیحدہ ہیئت نہیں ہے بلکہ آٹھ مختلف ہیٔتوں کا مجموعہ ہے۔ وہ آٹھ ہیٔتیں ہیں مثلث ،مربع، مخمس ،مسدس، مسبع، مثمن، متسع، معشر

شاعری کی موضوعی ہیٔتی اصناف

مثنوی :

مثنوی لفظ مثنّٰی سے ماخوذ ہے جس کے معنی دو ۔دو کے ہیں ۔ ادبی اصطلاح میں مثنوی ایسی شعری اصناف کو کہتے ہیں جس میں ہر شعر کے دونوں مصرعے ہم قافیہ ہو اور ہم وزن ہو اور ہر شعر کا قافیہ پچھلے شعر کے قافیہ سے مختلف ہو ۔یہ صنف اپنے مخصوص موضوعات ،مزاج اور مخصوص ہیئت کی بنا پرپہچانی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ اسے دوسری اصناف کے لیے بھی اپنایا جاسکتا ہے اس کا حقیقی مزاج داستانی ہے یعنی مثنوی میں عشقیہ داستانوں کا بیان ہوتا ہے۔ اس طرح مثنوی ایک طرح کی منظوم داستان ہوتی ہے۔ وہ داستان جو عشق کے جذبات و واقعات پر مبنی ہو اپنی اسی صفت کی وجہ سے مثنوی بیانیہ شاعری کی معراج تصور کی جاتی ہے اس لحاظ سے اردو زبان میں مثنوی ایک مقبول و معروف صنف سخن کی حیثیت رکھتی ہے اس کی مقبولیت کے پیشِ نظرپچھلے زمانے میں بہت سی عمدہ مثنویاں لکھی گئیں جو اردو شعرو ادب کا مایۂ ناز سرمایہ ہیں ۔ان میں میر حسن دہلوی کی ’’سحرالبیان‘‘ دیا شنکر نسیمؔ کی ’’گلزارِ نسیم‘‘ کو کافی شہرت حاصل ہوئی۔ مثنوی سحرالبیان سے بطورنمونہ اشعار ملاحظہ کیجئے۔

مرو تم، پری پر وہ تم پر مرے

بس اب تم زرا مجھ سے بیٹھو پرے

میں اس طرح کا دل لگاتی نہیں

;یہ شرکت توبندی کو بھاتی نہیں

اردو اور فارسی میں مثنوی کی ہیئت کے لیے آٹھ بحورمروج ہیں لیکن موجودہ زمانے میں بعض شعرائ نے دوسری بحورمیں بھی مثنویاں لکھی ہیں جن میں نمایاں نام حفیظ جالندھری کا ’’شاہنامۂ اسلام‘‘ ہے جو بحر ہزج مثمن سالم میں لکھی گئی ہے اور جوش ملیح آبادی کی طویل نظم ’’جنگل کی شہزادی ‘‘مثنوی کی ہیئت میں لکھی گئی ہے۔

قصیدہ :

قصیدے کی پہچان بھی اس کے موضوع اور ہیئت سے کی جاتی ہے۔ اگر ان دونوں خصوصیات میں سے ایک کا بھی فقدان ہو تو یہ صنف اپنی پہچان کھو بیٹھتی ہے ۔قصیدے کی اہمیت اس لیے مسلمہ ہے کہ غزل جیسی مقبول و معروف صنف سخن اسی کے بطن سے پیدا ہوئی ہے اس لیے قصیدے کی ہیئت بڑی حد تک غزل کی ہیئت سے ملتی ہے ۔

قصیدہ عربی زبان کا لفظ ہے جس کے لغوی معنی ’’گاڑھا مغز‘‘ کے ہیں ۔ یہ صنف اپنے اسی معنوی جوہر پر پوری اترتی ہے کیونکہ اس میں نادر و بلند اور پر شکوہ مضامین کا بیان ہوتاہے۔ اس لئے قصیدے کو شعری اصناف میں وہی درجہ حاصل ہے جو انسانی جسم میں مغز کو حاصل ہے ۔قصیدہ لفظ ’’قصد‘‘ سے مشتق ہے شاعر جب کسی کی مدح یا تعریف کرتا ہے تو اس میں ا س کا ارادہ یا قصد شامل ہوتا ہے ۔قصیدے میں نظم کی طرح خیالات و مضامین میں ربط و تسلسل پایا جاتا ہے ۔اس کے علاوہ موضوع کے لحاظ سے قصیدے کا کوئی نہ کوئی عنوان بھی ہوتا ہے ۔ موضوع کے لحاظ سے بھی قصیدے کی تقسیم کی ہے۔اس کے علاوہ قصیدے کو قافےے کے آخری حرف کی مناسبت سے مخصوص نام بھی دے دیا جاتا ہے ۔مثلاً قصیدۂ لامےہ، کافیہ ،میمیہ وغیرہ ۔ مثلا ؎

اٹھ گیا بہمن و دے کا چمنستاں سے عمل

تیغ آردی نے کیا ملک خزاں مستاصل

یہ قصیدہ لامیہ ہے کیونکہ اس کے قافیہ کا آخری حرف ’لام‘ ہے ۔

موضوع کے لحاظ سے قصیدے کو چار حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے

مدحیہ

ایسا قصیدہ جس میں کسی کی مدح یا تعریف بیان کی گئی ہو ۔

ہجویہ

ایسا قصیدہ جس میں کسی شخص یا مصائب زمانہ کی برائی بیان کی گئی ہو ۔

وعظیہ

جس قصیدے میں پندو نصائح کے مضامین بیان کئے جائیں اسے وعظیہ قصیدہ کہتے ہیں ۔

بیانیہ

جس قصیدے میں مختلف النوع کیفیات کے مضامین پیش کیے جائیں ۔وہ بیانیہ کہلاتا ہے۔

قصیدے کی دو قسمیں ہیں تمہید یہ ،خطابیہ ۔

تمہیدی میں تشبیب ،گریز ،مدح و دعا جیسے عناصر ترکیبی ہوتے ہیں ۔

اور خطابیہ میں تشبیب و گریز کو استعمال نہیں کیا جاتا بلکہ ممدوح کی تعریف سے قصیدہ شروع کر دیا جاتا ہے ۔

قصیدے کے اجزائے ترکیبی اس طرح ہیں :

تشبیب، گریز ،مدح ،عرضِ مطلب یا مدعااور دعا۔

شاعری کی ہیٔتی اصناف

غزل

غزل کے لغوی معنی ایسا کلام جس میں عورتوں کے حسن و عشق کا بیان ہو۔ عربی میں غزل کا مطلب عورتوں سے باتیں کرنا ہوتاہے ۔ادبی اصطلاح میں غزل نظم کی وہ صنفِ سخن ہے جس میں عشق ومحبت ،حسن و جمال ،گل و بلبل کے تذکرے، محبوب کے خدوخال کی تعریف اس کے جو روستم ،ہجرو فراق کی تڑپ و کرب و اضطراب اور محبوب کے وصال کی آرزو جنون و عشرت ،خزاں و بہار، یاس و امید ،شادی و غم کا ذکر ہو۔ لیکن زمانے کے ساتھ ساتھ غزل کے مضامین میں بھی اضافے اور تبدیلیاں رو نما ہوتی رہی ہیں او رہجروصال کی داستان کے ساتھ فلسفہ ،تصوف، سیاست و حیاتِ انسانی مختلف مسائل، دقیق خیالات او رسنجیدہ مضامین بھی غزلوں میں بیان ہونے لگے ہیں ۔

غزل کا ہر شعر دوسرے شعر سے معنی و موضوع کے اعتبار سے مختلف ہوتا ہے یعنی ایک شعر کو دوسرے شعر سے کوئی معنوی مناسبت نہیں ہوتی اگر شاعر غزل میں اپنے موضوع کے بیان اور خیالات کو ظاہر کرنے کے لیے ایک سے زیادہ اشعار کا استعمال کرے تو یہ اشعار قطعہ بند اشعار کہلاتے ہیں ۔ غزل کے پہلے شعر کو مطلع کہتے ہیں جس کے دونوں مصرعے ہم قافیہ ہوتے ہیں ۔ اگر غزل کا دوسرا شعر بھی ہم قافیہ ہو تو اسے حسنِ مطلع یا مطلع ثانی کہا جاتا ہے ۔مثلاً غالبؔ کے کلام سے اشعار ملاحظہ کیجئے ؎

ملتی ہے خوے یار سے نار، التہاب میں

کافر ہوں ، گر نہ ملتی ہو راحت عذاب میں

کب سے ہوں ،کیا بتائوں جہانِ خراب میں

شبہائے ہجر کو بھی رکھوں گر حساب میں

غزل میں ردیف کا استعمال بھی ہوتا ہے لیکن یہ غزل کی ہیئت کا بنیادی رکن نہیں ہے اس لیے کہ ردیف کے بغیر بھی غزلیں کہی جاتی ہیں ۔ اس کے علاوہ کبھی کبھی بے مطلع غزلیں بھی کہی گئی ہیں مطلع کے بعد اشعار میں پہلا مصرعہ قافیہ کا پابند نہیں ہوتا ۔لیکن سارے مصرعے ثانی ہم قافیہ ہوتے ہیں ۔ غزل کے آخری شعر کو مقطع کہتے ہیں جس میں شاعر اپنا تخلص استعمال کرتا ہے ۔اس کے علاوہ غزل کے اشعار میں خیال و موضوع کے ربط و تسلسل کی قید نہیں ہوتی یعنی اگر ایک شعر عشق کے جذبات کی عکاسی کرتاہے تو دوسراشعر سیاسی نکتۂ نظر کو پیش کرسکتا ہے تیسرا فلسفہ پر روشنی ڈال سکتا ہے۔ یعنی غزل کو ہم موضوع میں قید نہیں کر سکتے ایک ہی غزل میں حسن و عشق کا بیان ۔دنیا کی بے ثباتی، سماجی مسائل ،فلسفیانہ نکات و سیاسی سرگرمیاں غرض ہر قسم کے خیالات کو پیش کرنے کی آزادی ہے ۔غزل ایک شعر کے دو مصرعوں میں ہی ایک مکمل اور بڑے سے بڑے خیال کو پیش کرنے کی قوت رکھتی ہے ۔اس لیے غزل دریا کو کوزہ میں بند کرنے کا عمل قرار دیا گیا ہے جس میں شاعر اپنی بات کو ادا کرنے کے لیے علامتوں ،کنایوں ،استعارات اور تشبیہات صنائع بدائع کا سہارا لیتا ہے ۔

رُباعی

رباعی ایک مختصر سی صنف سخن ہے۔ جس میں عام طور پر فلسفیانہ ،مفکرانہ اخلاقی اور کبھی کبھی عشقیہ مضامین کا بیان ہوتا ہے یہ چار مصرعوں پر مشتمل ہوتی ہے جو غزل کے دو شعروں سے مشابہ ہوتی ہے ۔

رباعی عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی چار چار ہیں ۔ اصطلاحاً اس سے وہ شعری ہیئت مراد ہے جو چار مصرعوں پر مبنی ہو اور فکرو خیال کے لحاظ سے مکمل ہو۔ رباعی کے چاروں مصرعوں میں خیال مربوط اور مسلسل ہوتا ہے اور آخری مصرعے میں خیال کی تکمیل ہوتی ہے ۔اس کے پہلے دوسرے اور چوتھے مصرعے ہم قافیہ ہوتے ہیں تیسرا مصرعہ بے قافیہ ہوتا ہے ۔رباعی کے اوزان مثنوی کی طرح مخصوص ہیں اس کے چوبیس اوزان ہیں ۔ چنانچہ رباعی مقررہ اوزان کی پابند ہونی چاہئے۔

مرثیہ :

مرثیہ عربی کا لفظ ،رثیٰ سے مشتق ہے رثیٰ کے معنی مردے پر رونا اور آہ وزاری کرنا ہے ۔یہ صنف عربی شاعر میں رائج تھی جس میں اپنے عزیزوں اور بزرگوں کے انتقال پر رنج والم کے جذبات سے پر اشعار کہے جاتے ہیں ،انہیں مرثیہ کہا جاتاتھا۔ مرثیہ اردومیں موضوعاتی لحاظ سے واقعات کر بلا سے مخصوص ہوگیاہے۔ یہ اسی مفہوم میں اردو میں رائج ہے لیکن اردو میں ایسے مرثیوں کی بھی کمی نہیں جو مختلف اشخاص کی اموات پر اظہار غم کے لیے لکھے گئے ہیں ۔ عام طور پر مرثیہ مسدس کی ہیئت میں لکھے جاتے ہیں ۔ مرثیہ نویسی میں مشہور نام میر انیسؔ اور مرزا دبیرؔ کے ہیں ۔مرثیہ کے اجزائے ترکیبی میں چہرہ ، سراپا، رخصت ،آمد، رجز ،رزم ، شہادت بین مرثیہ کے عناصر ترکیبی ہیں جو میر ضمیرؔ نے قائم کیے تھے ۔لیکن تما م مرثیوں میں ان کی پابندیاں لازماً نہیں ملتی ۔

نوحہ :

نوحہ وہ مرثیہ سلام ہوتا ہے جس میں بین کے اشعار زیادہ ہوتے ہیں ۔ کیونکہ یہ لے کے ساتھ پڑھا جاتا ہے اور اس کے بعد ماتم کیا جاتا ہے اس میں بھی زیادہ تر واقعات کر بلا کا بیان ہوتا ہے نوحہ زیادہ تر مستزادکی ہیئت میں لکھے گئے ہیں لیکن اس میں ہیئت کی کوئی قید نہیں ہے۔

سلام :

سلام قصیدے یا غزل کی شکل میں لکھا جاتا ہے ۔سلام کے مطلع میں اکثر لفظ سلام یا سلامی لایا جاتا ہے مثلاً

سلام اس پرکہ جس نے بادشاہی میں فقیری کی

اس میں مرثیہ کی طرح واقعات کر بلا کے فضائل بیان کیے جاتے ہیں اور ساتھ میں مختلف اخلاقی مضامین بھی بیان کیے جاتے ہیں ۔ اور وہ نعتیہ نظم بھی ہوتی ہے جس میں حضورؐ کی تعریف کی جاتی ہے اور لفظ سلام استعمال ہوتا ہے ۔

حمد :

حمد میں خدا تعالیٰ کی تعریف بیان کی جاتی ہے ۔یہ نظم یا قصیدے کی شکل میں بھی ہوسکتے ہیں ۔اکثر مثنویاں حمد کے اشعار سے شروع ہوتی ہےں ۔ اور یہ کسی نظم کا ابتدائی حصہ بھی ہوسکتے ہیں اس کے علاوہ الگ سے حمد بھی لکھی جاتی ہے ۔

نعت :

نعت میں حضورؐ کے اوصاف بیان کیے جاتے ہیں ایسے اشعار عموماً کسی نظم کے شروع میں لائے جاتے ہیں نعت علیحدہ بھی لکھی جاتی ہے ۔

منقبت:

اس میں صحابہ اکرام حضرت علیؓ یا ائمہ اکرام صوفیا کی تعریف کی جاتی ہے۔یہ بھی کسی نظم کے حصے کے طور پر یا قصیدے کی شکل میں لکھے جاتے ہیں ۔

مناجات :

اس میں شاعر خدا کی صنّاعی بیان کرتا ہے ۔اور دُعا گو ہوتا ہے ۔یہ اشعار نظم کے ایک حصے کے طور پر لائے جاتے ہیں ۔

ساقی نامہ :

یہ نظم مثنوی کی ہیئت میں لکھی جاتی ہے اس میں شاعر ساقی سے خطاب کرکے موسم بہار یا شراب نوشی کی باتیں کرتاہے اور اس سلسلے میں وہ مفکرانہ ،فلسفیانہ اوراخلاق مضامین قلم بند کرتا ہے اقبالؔ کی نظم ساقی نامہ اس کی بہترین مثال ہے ۔

ہجو :

ہجو قصیدے کی ہی ایک قسم ہے جس میں کسی شخص یا مصائب زمانے کی برائی بیان کی جاتی ہے۔ سوداؔ کی مشہور ہجو ’’تضحیک روز گار‘‘ اس کی عمدہ مثال ہے ۔سوداؔ نے اور بہت سی ہجویات لکھی ہیں ۔

واسوخت :

واسوخت میں غزل کی روایتی عاشقی کی خود سپردگی اور نیاز مندی کے بجائے خودداری کا اظہار ہوتا ہے یعنی جس میں عاشق اپنے معشوق کو جلی کٹی سناتا ہے ۔جس میں عاشق معشوق سے بے پروائی ،بے التفاقی اور بےزاری برتتا ہے ۔اس صنف میں ۔جرأت اظہار اور صاف گوئی سے عاشق کی قدر و قیمت میں اضافہ ہوتا ہے ۔و اسوخت میں عاشق محبوب کو کھلے لفظوں میں یہ بات بتانا چاہتا ہے کہ تمہاری جو قدرو منزلت ہے وہ ہمارے عشق کی بدولت ہی ہے ۔اقبالؔ کا شعر ؎

تو جو ہر جائی ہے اپنا بھی یہی طور سہی

تو نہیں اور سہی اور نہیں اور سہی

واسوخت ابتدا میں آٹھ مصرعے کی ہیئت میں لکھے جاتے تھے۔ ہر بند کے اولین چھ مصرعے ہم قافیہ ہوتے تھے اور ہیئت کا شعر کسی اور قافیہ میں ہوتا تھا ۔لیکن میرؔ نے اس ہیئت سے انحراف کرتے ہوئے و اسوخت کے لیے مسدس (چھ مصرعے) کی ہیئت اختیا رکی۔

شہر آشوب:

اس صنفِ سخن میں کسی شہر، ملک ،خطے کی بربادیوں تباہ کاریوں کا ذکر نہایت درد مندی کے ساتھ کیا جاتا ہے ۔ یہ بربادی اور تباہ کاری کسی عہد معاشرے اور جماعت کی ہوسکتی ہے۔اس کے موضوعات بے بسی، پستی، زوال ،مفلوک الحالی وغیرہ ہیں شہر آشوب کی پہچان اس کے مخصوص موضوع کی بنا پر ہوتی ہے ۔شہر آشوب ،غزلیہ ،مثنوی ،مخمس اور مسدس کی ہیٔتوں میں لکھے گئے ہیں اس سلسلے میں نواب مرزا داغؔ کا مشہور شہر آشوب کا ایک بند ملاحظہ کیجئے۔

فلک نے قہر و غضب تاک تاک کر ڈالا

;تمام پردۂ ناموس چاک کر ڈالا

?یکایک ایک جہاں کو ہلاک کر ڈالا

غرض کہ لاکھ کا گھر اس نے خاک کر ڈالا

جلی ہیں دھوپ میں شکلیں جو ماہتاب کی تھیں

کھنچی ہیں کانٹوں پہ جو پتیاں گلاب کی تھیں

نظم:

غزل کی طرح نظم کی ہیئت مخصوص نہیں ہے ۔غزل کے اشعار میں باہمی تسلسل نہیں ہوتاہے لیکن نظم کے اشعار ایک دوسرے سے پیوست ہوتے ہیں ۔ نظم ایک نہایت بسیط و وسیع اصطلاح ہے ۔غزل کے علاوہ دوسری اصنافِ شعر مثلاً قصیدہ، مرثیہ ، واسوخت ،شہر آشوب ،اور مثنوی نظم ہی کی ایک شکل ہیں ۔ یعنی یہ تمام اصنافِ سخن فکرو خیال کے تسلسل اور ربط پر مبنی ہیں لیکن چونکہ ہم نے ان اصناف کو ان کے ہیٔتی اور موضوعی حیثیت سے الگ الگ اصناف مانا ہے اس لیے یہ نظم کی حدود سے نکل جاتی ہےں ۔ نظم جو کہ نہ موضوعی صنف ہے نہ اس کی کوئی مخصوص ہیئت ہے یہ قدیم زمانے سے مختلف ہیتوں میں پیش کی جاتی رہی ہے۔ یہ صنف اردو کے پہلے صاحب دیوان شاعر قلی قطب شاہ سے لے کر عہد جدید کے شعرائ کے یہاں کثرت سے ملتی ہے۔ نظیر اکبر آبادی کی شاعری میں اس صنف کی جلوہ گری ہے۔ الطاف حسین حالیؔ اور محمد حسین آزاد نے اسے استحکام بخشا۔ زندگی کا ہر واقعہ ،ہر واردات ،ہر رنگ اس کا موضوع ہوسکتا ہے ۔

جدید نظم نگاروں کے یہاں اس کی دو قسمیں نظم معرا اور آزاد نظم ملتی ہیں ۔چونکہ اس دور میں نظم کی ہیئت میں تبدیلیاں رو نما ہوئی ہیں اور نظمِ آزاد او رنظمِ معریٰ پر طبع آزمائی کی گئی ہے ۔

نظم معریٰ :

اردو میں یہ ہیئت انگریزی سے منتقل ہوئی ہے انگریزی میں اس کا نام بلینک ورس ہے ۔اردو میں ابتدا میں اسے نظمِ غیر مقفیٰ کا نام دیا گیا لیکن بعد میں عبدالحلیم شررؔ نے بابائے اردو عبدالحق کے مشورے پر اس کے لیے نظم معریٰ کی اصطلاح رائج کی جو مقبول ہوئی۔ انگریزی میں نظم کی یہ ہیئت آئمبک پینٹا میٹر بحر کے لیے مخصوص ہے لیکن اردو میں اس بحر کا تتبع ممکن نہیں ہے اس لیے صرف قافیہ کی آزادی کو ہی قبول کیاگیا ۔اس طرح اردو میں معریٰ نظم ایسی شعری ہیئت ہے جس میں ارکان کی تعداد برابر ہوتی ہے یعنی نظم کے تمام مصرعوں کا وزن برابر ہوتا ہے لیکن قافیہ ردیف کی پابندی نہیں ہوتی۔

اردو نظم کی اس ہیئت کے اولین تجربے محمد حسین آزادؔ ،اسماعیلؔ میرٹھی اور عبدالحلیم شررؔ کے یہا ں ملتے ہیں اکثر ناقد عبدالحلیم شررؔ کو اردومیں نظم معریٰ کا موجد قرار دیتے ہیں لیکن حنیف کیفی نے محمد حسین آزادؔ کو اولیت دی ہے ۔محمد حسین آزاد کی نظم’ جغرافیہ طبعی کی پہیلی ‘ اور’ جذب دوری ‘کووہ اردو کی سب سے پہلی معریٰ نظمیں تسلیم کرتے ہیں ،’ جغرافیہ طبعی کی پہیلی ‘کا ایک بند نمونے کے طور پر ملاحظہ کیجئے۔

ہنگامہ ہستی کو

گرغور سے دیکھو تم

ہر خشک و تر عالم

صنعت کے تلاطم میں

جو خاک کا ذرّہ ہے

‘یا پانی کا قطرہ ہے

حکمت کا مرقع ہے

جس پر قلمِ قدرت

انداز سے ہے جاری

اور کرتا ہے گلکاری

ایک رنگ کے آتا ہے

سو رنگ دکھاتا ہے

آزاد نظم :

آزاد نظم میں انگریزی سے اردو میں منتقل ہوئی ہے انگریزی میں اسے ’’فری ورس‘‘ کہا جاتا ہے اس لحاظ سے انگریزی اصطلاح کا لفظی ترجمہ آزاد نظم کے نام سے اردومیں رائج ہے۔ اس شعری ہیئت کو اردو میں بہت مقبولیت حاصل ہے ۔فری ورس ایسی نظم کو کہا جاتا ہے جو مختلف بحروں کے امتزاج یا یکسر وزن سے آزاد ہوتی ہے جن میں قافیہ ردیف کی پابندی نہیں ہوتی اور وزن کی پابندی بھی نہیں ہوتی اس اعتبار سے آزاد نظم ،نظم اور نثر کے بیچ کی چیز ہے ۔

2

نثری ادب کی ایک مقبول اور پسندیدہ صنف “انشائیہ” ہے، کچھ لوگ “مضمون” اور “انشائیہ” میں فرق نہیں کرتے، حالانکہ انشائیہ تحریر کی ایک منفرد صورت ہے اور نثری ادب میں اس کا ایک الگ صنفی مقام ہے۔ انشائیہ نگار کے الفاظ گلہائے رنگا رنگ سے سجے ہوتے ہیں، وہ کاغذ کے چمنستان کو مختلف خیالات، تاثرات، مشاہدات، محاورات اور مزاحیہ استعارات کے رنگ برنگے پھول بوٹوں سے بھردیتا ہے، تنقیدی لہجہ انشائیہ نگار کی خوبی ہے، انشائیہ لکھنے والے کی نگاہ کسی ایک واقعے، قصے یا حادثے پر نہیں ہوتی؛ بلکہ وہ ایسا اچھوتا انداز اختیار کرتا ہے جس میں قاری کی دلچسپی کو اپنا مقصد بناتا ہے، اس کی تحریر میں نہ سنجیدہ پن ہوتا ہے اور نہ رنج و غم کا اظہار، انشائیہ میں کہانی پن ادبی جرم ہے۔ خیالات کی بے ترتیبی انشائیہ کا حسن ہے۔

مضمون یا مقالہ:

ادب کی وہ صنف جو سنجیدگی، متانت، علم کی رونق اور صداقت و دیانت کے دائرے میں لکھی جائے۔ مقالہ میں کسی سنجیدہ موضوعر وشنی ڈالی جاتی ہے، اس میں حکمت و فلسفہ اور علم و دانش کے مطابق کسی ایک عنوان پر قلم کار کے مثبت اور عمدہ خیالات ہوتے ہیں، صاحب قلم کو کسی مضمون یا مقالے میں علمی و سائنسی یا عالمانہ وفاضلانہ امور کو اجاگر کرنے کا موقع ملتا ہے۔مقالہ ہمیں وقت اور زمانہ، زمانے کی رفتاراور معاشرہ و ماحول سے روشناس کراتا ہے۔ آسمان، خلا، فضا، نظام شمسی، ہوا، بادل، بارش، موسم وغیرہ کے متعلق ہم غور کرتے ہیں، کتنے ہی سوالات ہمارے ذہن کی سطح پر ابھرتے ہیں۔ ایسے موقع پر ایک سائنسی مقالہ ہماری آسودگی کا سبب بن جاتا ہے، کسی بھی موضوع پر ایک تحقیقی اور معلوماتی مقالہ ہمارے ذہنوں کے بنددریچوں کو کھول دینے کی طاقت رکھتا ہے۔ مقالہ کے لئے زبان و بیان کا واضح اور صاف ستھرا ہونا ضروری ہے، ادبیرنگ اور دلکش اسلوب مقالے کے حسن کو دوبالا کر دیتا ہے۔ ہمیں اخبارات و رسائل میں مختلف موضوعات پر مقالے پڑھنے کو ملتے ہیں۔ ادبی، علمی و فقہی سیمناروں میں کسی خاص موضوع پر مقالے پیش کئے جاتے ہیں۔

داستان:
یہ صنف ناول، افسانہ اور ڈرامے کی اخوات میں شمار ہوتی ہیں۔ لی کن اس کا اسلوب اور انداز قدرے مختلف ہے، داستانوں میں عجیب و غریب خیالی واقعات کو دلچسپ انداز میں بیان کیا جاتا ہے، داستانی تحریریں پڑھنے اور سننے والے کو اپنی طرف کھینچتی چلی جاتی ہیں۔ داستانیں ماضی کی روایت رہی ہیں۔ داستان میں واقعات کا الجھاؤ، پیچیدگی، بیان کی طوالت اور کرداروں کی کثرت ہوتی، لیکن اس کے باوجود اس کا حسن باقی اور اس کی دلکشی برقرار رہتی ہے۔ پڑھنے یا سننے والا داستان کے انجام تک پہنچنے کے لئے بے قرار رہتا ہے۔

ناول:

ناول انگلش لفظNovel سے ماخوذ ہے، جس کے معنی انوکھے اور عجیب و غریب کے ہیں، ناول اصل میں زندگی کی تصویر کشی اور زمانے کی منظر کشی کا ایک تحریری فن ہے، اس میں انسانی احساسات و جذبات اور حیات کی حقیقتوں کو نرالے انداز میں پیش کیا جاتا ہے۔ مناسب الفاظ و تراکیب اس انوکھے پن کی کیفیت پیدا کرتے ہیں، ناول میں کردار کے ہر پہلو پر تفصیلی روشنی ڈالی جاتی ہے۔ پلاٹ، کردار نگاری، منظر نگاری، جزئیات نگاری اور مکالمہ نگاری وغیرہ ناول کے بنیادی عناصر ہیں۔

افسانہ:
مختصر کہانی کو افسانہ کہتے ہیں۔ ناول کی طرح افسانہ کے موضوعات کا دائرہ بھی وسیع ہے۔ افسانوں میں سماجی مسائل اور انسانوں کی ذہنی و جذباتی الجھنوں کی ترجمانی ہوتی ہے۔ افسانہ نگار اپنی تحریر میں زندگی کے پیچ و خم، نا آسودگی، رنج و غم، طبقای کشمکش، عدم رواداری، رنگ و نسل کی تفریق، غربت و افلاس، ظلم و ستم اور نا انصافی جیسے مسائل کا رونا روتا ہے۔ افسانے میں واقعات کو تفصیل کے بجائے اختصار سے پیش کیا جاتا ہے۔ پلاٹ، منظر نگاری، مکالمہ نگاری اور کردار نگاری وغیرہ اس کے اجزائے ترکیبی ہیں، افسانے اور ناول کے تشکیلی عناصر میں کئی حد تک مماثلت پائی جاتی ہے۔

سوانح:

اس میں کسی شخصیت کے (پیدائش سے لے کر موت تک) حالات زندگی کو بالتفصیل پیش کیا جاتا ہے، سوانح کے مطالعے سے نہ صرف کسی شخصیت کے احوال زندگی، تعلیم و تربیت اور عادت و اطوار کا علم ہوتا ہے، بلکہ اس عہد کے تاریخی، تہذیبی، سیاسی اور ادبی حالات و رجحانات سے بھی واقفیت ہوتی ہے۔ سوانح کسی بھی علمی، ادبی، سیاسی یا معروف شخصیت کی زندگی سے متعلق لکھی جا سکتی ہے۔ واقعات کی صداقت اور حالات کی صحیح عکاسی سوانح نگار کے لئے ضروری ہے۔ ہم نے بہت سے عقیدت مند سوانح نگاروں کو پڑھا تو معلوم ہوا کہ اکثر سوانح نگار عقیدت و محبت میں اس قدر بڑھ جاتے ہیں کہ صاحب سوانح کو فرش سے عرش تک پہنچا دیتے ہیں، تعریف میں اس قدر غلو کہ اللہ کی پناہ!! آداب و القاب میں اس قدر اضافہ کہ صاحب سوانح کی روح بھی شرمسار ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ یہ حال عام قلم کاروں سے زیادہ خواص یعنی علماء کی جماعت کا ہے۔

خودنوشت:
خود نوشت بھی کسی شخصیت کی داستان حیات ہوتی ہے، لیکن اس کو کوئی دوسرا نہیں، بلکہ وہ بدست خود لکھتا ہے، اسے “خود نوشت سوانح” بھی کہتے ہیں۔ خود نوشت لکھنے والا اپنے حالات زندگی اور تجربات و مشاہدات کو لوگوں کے سامنے پیش کرتا ہے، کبھی گردش ایام کی ستم کاریوں کا تذکرہ کرتا ہے تو کبھی زندگی کے چمنستان میں فصل بہار کی آمد و رفت کا۔ خود نوشت کو “آپ بیتی” بھی کہتے ہیں، جس میں لکھنے والا اپنی روداد زندگی کو اس انداز سے پیش کرتا ہے کہ آپ بیتی ” جگ بیتی” بن جاتی ہے۔ مولانا عبدالماجد دریآبادیؒ اور شیخ زکریا کاندھلویؒ کی آپ بیتیاں پڑھنے لائق ہیں۔

سفرنامہ:
سفر نامے میں چشم دید واقعات اور سیروسیاحت کی داستان قلم بند کی جاتی ہے۔ کسی بھی سفر نامے کو پڑھ کر کسی ملک و قوم کی خوش حالی، ترقی، روایت، تہذیب و ثقافت اور جغرافیائی حدود کا علم ہوتا ہے۔ سفرنامہ لکھنے والا واقعات و حادثات کا خود شاہد ہوتا ہے اور دوسروں کے سہارے کے بغیر اپنی داستان سفر رقم کرتا ہے، ہاں ! اگر وہ اس میں کسی دستاویز یا طویل العمر بوڑھوں کے تعاون سے کسی جگہ کی تاریخی جھلکیاں پیش کرنا چاہے تو بات دیگر ہے۔

AIOU Solved Assignment Code 427 Spring 2024

ANS 02

قیامِ پاکستان کو ستّرسال ہوگئے ہیں،اس دوران زندگی کے مختلف شعبوں کی طرح، ادب کے میدان میں بھی خاصا کام ہوا ہے۔ اس حوالے سے’’ پاکستان میں اردو ادب کے ستّر سال‘‘ کے عنوان سے محمد حمید شاہد کا مضمون پیش ِخدمت ہے، جس سے پاکستانی ادیبوں اور شاعروں کی کارکردگی کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

ستّر کی دہائی تک آتے آتے بہت تبدیلی آچکی تھی۔ ادب، انسان کے باطن میں موجزن احساس سے جڑ رہا تھا۔ اسی داخلیت نے دروں بینی کے چلن کو عام کیا تو لسانی تشکیلات کا تجربہ سامنے آیا ۔ علامت و تجریت کی طرف افسانہ مائل ہوا ، ہیئت اور تیکنیک کے تجربات ہوئے، اس سے ایک نیا اسلوب بنا۔

اردو ادیب، ہند اسلامی مشترکہ تہذیب کا نمائندہ تھا، تاہم قیام پاکستان کے بعد اس کا رشتہ، یہاں کی زمینی روایت کے ساتھ ساتھ فرد کی روحانی تاریخ کے مظاہر سے شعوری طور پر جڑتا چلا گیا۔ یہیں سے ایک کشمکش کا آغاز بھی ہوا ، یہ بات ترقی پسندوں کو ایک آنکھ نہ بھا رہی تھی، واقعہ یہ تھا کہ ادب کے مزاج میںاگر ایک طرف یہاں کی ہزاروں سالہ تاریخ کام کر رہی تھی تو اس کے قلب میں یہ سوال بھی موجود تھا کہ اس کی جڑیں کہیں اور سے روحانی اور فکری غذا پا رہی ہیں۔ ہمارے ادب میں ہماری قوم سانس لے رہی ہے، وہ قوم، جسے تاریخ کا سفاک جبر کاٹ کاٹ کر مُردہ بنا رہا ہے۔ عام آدمی کی خوشیاں، اُن کے غم سب اس میں جھلکتے ہیں۔ یہ اندازِ نظر اور تاریخ نویسی کا یہ ڈھنگ ہمارے ادب کا شعار رہا ہے۔

جن دنوں پورے برصغیر کا مسلمان ایک الگ وطن کا خواب دیکھ رہا تھا ،یہاں کا ترقی پسند ادیب اپنے ہی ڈھب سے سوچ رہا تھا۔ ایک الگ وطن کا خیال اس کے لہو میں کسی قسم کا جوش پیدا نہیں کر رہا تھا، تاہم قیام پاکستان کے بعد اِدھر بھی اور اُدھر بھی ترقی پسندوں نے نئے نئے موضوعات کا در اردو ادب پر کھول دیا ۔ یہ سوال بھی عین اسے زمانے میں سامنے آیا تھا کہ کیا پاکستان کا ادب اپنے مزاج کے اعتبار سے تقسیم سے پہلے والے ادب سے مختلف ہونا چاہیے؟ اور کیا ادب کو قومی شناخت کا ذریعہ بنایا جا سکتا ہے؟ تقسیم سے پہلے کا اردو ادیب ہند اسلامی مشترکہ تہذیب کا نمائندہ تھا، تاہم قیام پاکستان کے بعد اس کا رشتہ، یہاں کی زمینی روایت کے ساتھ ساتھ فرد کی روحانی تاریخ کے مظاہر سے شعوری طور پر جڑتا چلا گیا ۔ یہیں سے ایک کشمکش کا آغاز بھی ہوا کہ یہ بات ترقی پسندوں کو ایک آنکھ نہ بھا رہی تھی، خیر واقعہ یہ تھا کہ ادب کے مزاج میںاگر ایک طرف یہاں کی ہزاروں سالہ تاریخ کام کر رہی تھی تو اس کے قلب میں یہ سوال بھی موجود تھا کہ اس کی جڑیں کہیں اور سے روحانی اور فکری غذا پا رہی ہیں۔

یاد رہے کہ وہ ادیب، جو تقسیم کے حامی نہ تھے اور انسان اور انسانیت کے ساتھ بہت سختی سے وابستہ تھے، ایک وقت ایسا آیا تھا کہ وہ ادیب بھی ہندوستان چھوڑ کر پاکستان آنے پر مجبور ہوگئے تھے ، شاید اس لیے کہ یہیں ان کے باطنی تخلیق کار کی تکمیل ممکن تھی۔ ’منٹو کی کہانی ’’ کھول دو‘‘ کو کچھ لوگ کسی اور نگاہ سے دیکھتے ہیں ،مگر مجھے تو یہ بھی اُس کے پاکستانی ہونے کی روداد سناتی ہے۔

پاکستان آنے کے بعد منٹو نے جو دو پہلی کہانیاں لکھیں، اُن میں ’’کھول دو‘‘ شامل ہے ، تاہم یہی منٹو کی پہلی پاکستانی کہانی بنتی ہے ۔ ا س افسانے میں جہاں فسادیوں اور لوٹ مار کرنے والوں کے خلاف نفرت اُبھاری گئی ہے، وہیں ہماری ملاقات ایک حساس پاکستانی سے بھی ہوتی ہے ۔ ایسا پاکستانی، جو فسادات اور قتل وغارت گری کو نفرت اور دُکھ سے دیکھتا ہے۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ اپنے خوابوں کی سرزمین کی طرف دیکھنے والوں کے ساتھ ایسا ہوتا ۔’’کھول دو‘‘ کو سمجھنے کے لیے قیام پاکستان کے بعد کے بدلے ہوئے منٹو کو سمجھنا بہت ضروری ہے ۔

میں اُس تبدیلی کی بات کر رہا ہوں، جسے ناقدین نے باقاعدہ نشان زد کیا ہے۔ منٹونے خود ’’زحمت مہر درخشاں‘‘ میںلکھا تھا کہ پاکستان آنے کے بعد یہ الجھن پیدا کرنے والا سوال اس کے ذہن میں گونجتا رہا ہے کہ کیا پاکستان کا ادب علیحدا ہوگا؟ اگر ہوگا تو کیسے؟ اور یہ کہ اسٹیٹ کے تو ہم ہرحالت میں وفادار رہیں گے ‘ مگر کیا حکومت پر نکتہ چینی کی اجازت ہوگی ؟اور آزاد ہو کر کیا یہاں کے حالات فرنگی عہد حکومت کے حالات سے مختلف ہوں گے؟ یہی وہ بنیادی سوالات ہیں، جو پاکستانی ادب کا مزاج متعین کر رہے تھے ۔میں نے کہا نا،وہ ادیب بھی جو پاکستان کے قیام سے پہلے تقسیم کے مخالف تھے یا اس سارے تاریخی عمل سے الگ تھلگ ہو کر بیٹھ گئے تھے ،پاکستان بننے کے بعد پاکستانی ہوکر سوچ رہے تھے ۔

منٹو صاحب پاکستان آئے ، اسے اپنا وطن بنایا ، اسٹیٹ کے وفادار ہوئے اوراس نظام کے ناقد ہو گئے، جو فرنگی عہد سے مختلف نہیں ہورہا تھا،جہاں جہاں انہیں ٹیڑھ نظر آیا وہاں وہاں انہوںنے بھر پور چوٹ لگائی ۔ اَفسانہ ’’کھول دو‘‘ بھی ایسی ہی شدیدچوٹ ہے۔ ایک سچے پاکستانی کی اُس معاشرتی روّیے پر بے رحم چوٹ جس نے ہمارے سنہرے خوابوں کو گدلا دیا تھا ۔

برصغیر کی تقسیم کا واقعہ جہاں آزادی کے دِل خوش کن خوب سے جڑا ہواہے، وہیں نقل مکانی کے المیے سے بھی وابستہ ہے ۔ وہ علاقے ،جن سے ماضی کی ساری یادیں وابستہ تھیں،وہ خیال میں بہت گہرائی میں پیوست تھے، ادیب کا رشتہ اس خیال سے مستحکم ہو کر سامنے آیا ۔ اس نئی زمین کے لیے جس طرح کے خواب دیکھے گئے تھے، اس کی عملی تعبیر میں سو طرح کے رخنے تھے،یہی سبب ہے کہ فیض احمد فیض کی جانب سے داغ داغ اُجالا کی بات ہونے لگی تھی ایسے میں ماضی کی زمینوں کو دیکھنا، وہاں کے دُکھ سکھ کا نئی صورت حال سے موازنہ کرنا اُردو ادب کا باقاعدہ موضوع بن گیا ۔

سینتالیس سے ساٹھ تک کے زمانے کے ادب میں اسی ماضی کی گونج صاف طور پر سنی جاسکتی ہے ، حتیٰ کہ انتظار حسین پر تو اسی ناسٹلجیا کا شکار ہونے کی پھبتی بھی کسی جاتی رہی، تاہم واقعہ یہ ہے کہ انتظار حسین جیسے ادیب محض ماضیِ قریب سے وابستہ نہیں ہوئے تھے، وہ ہندِ اسلامی تہذیب سے وابستہ ہوکر کچھ خواب دیکھ رہے تھے، چاہے یہ خواب ’’آخری آدمی ‘‘ کی صورت میں ہی کیوں نہ ہوں۔

ساٹھ اور ستر کی دہائی تک آتے آتے بہت تبدیلی آچکی تھی۔ ترقی پسندوں کا نعرے لگانے والا رجحان مات کھا چکا تھا ۔ ادب انسان کے باطن میں موجزن احساس سے جڑ رہا تھا۔ اسی داخلیت نے دروں بینی کے چلن کو عام کیا تو لسانی تشکیلات کا تجربہ سامنے آیا ۔ علامت و تجریت کی طرف افسانہ مائل ہوا ۔ ہیئت اور تیکنیک کے تجربات ہوئے، اس سے ایک نیا اسلوب بنا، یوں مجموعی سطح پر دیکھا جائے تو ادب ایک نئے تصور سے جڑا اور زبان کے اندر اظہار کی بے پناہ قوت پیدا ہوئی۔

تخلیقی زبان لکھنے کی اس لگن کے زمانے میں جہاں نظم مختلف ہوگئی تھی، وہاں ہمارا افسانہ بھی اس سے اثر قبول کر رہا، یہی وہ زمانہ ہے، جب ہمارے ہاں سب کچھ ’’نیا ‘‘ ہو گیا تھا۔ نیا افسانہ، نئی نظم، نیا ادب حتیٰ کہ غزل بھی نئی۔ ان دنوں ادھر سرحد کے پار بلراج مین را نے ’’ماچس‘‘ لکھا تھا اور سریندر پرکاش نے’’دوسرے آدمی کا ڈرائنگ روم‘‘ تو ادھر پاکستان میں انورسجاد نے ’’ماں اور بیٹا‘‘، رشید امجد نے ’’گملے میں اُگا ہو شہر‘‘ لکھے تھے ،احمد ہمیش نے ’’کہانی مجھے لکھتی ہے‘‘ لکھی حتیٰ کہ کہانی کی روایت سے جڑے ہوئے منشایاد جیسے افسانہ نگاروں نے نئے بھی اس چلن میں لکھنا قبول کر لیا تھا کہ اُس زمانے میں اس میدان میں قدم گاڑھے بغیر توجہ پانا ممکن ہی نہ تھا، تاہم جب اس نئی لہر سے یکسانیت کی بُو آنے لگی اور یہ تحریک فیشن زدگی کا شکار ہو گئی تو قاری اور ادیب میں مغائرت در آئی۔

ایک بات یہاں دہرانے کے لائق ہے کہ سن سینتالیس میں ہجرت کرنے والے جب انسانیت کے دشمن درندوں کے نرغے میں تھے تو بھی ہمارا اَفسانہ چوکنّا تھا۔ منٹو نے، کھول دو لکھا یوں کہ سب کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ قیدی اثاثوں کی طرح تقسیم ہوئے تو اسی کے باکمال قلم نے، ٹوبہ ٹیک سنگھ لکھا۔

احمد ندیم قاسمی کا، پرمیشر سنگھ قافلے سے بچھڑ جانے والے کا صرف سانحہ ہی نہیں وقت کے مخصوص پارچے پر کہانی کی مہر بھی ہے۔ یہ روّیہ اب تک چلا آتا ہے۔ کچھ دن گزرتے ہیں منشا یاد نے اَفسانہ لکھا تھا، کہانی کی رات اور مجھے افسانہ لکھنا پڑا تھا، سورگ میں سور یا پھر ناول مٹی آدم کھاتی ہے۔ سچ پوچھیں تو ہمارے ادب میں ہماری قوم سانس لے رہی ہے، وہ قوم، جسے تاریخ کا سفاک جبر کاٹ کاٹ کر مُردہ بنا رہا ہے۔ عام آدمی کی خوشیاں ان کے غم سب اس میں جھلکتے ہیں۔ یہ اندازِ نظر اور تاریخ نویسی کا یہ ڈھنگ ہمارے ادب کا شعار رہا ہے۔
ستر کی دہائی کے عین آغاز میں ہم دولخت ہو گئے تھے۔ انتظار حسین، مسعود مفتی اور مسعود اشعر کے علاوہ وہ تخلیق کار، جو براہِ راست اس سانحے سے گزرے، وہ وہیں بس گئے یا وہ جو یہاں آگئے تھے، لکھنے بیٹھے تو لہورُلا گئے۔ غلام محمد، محمود واجد، امِ عمارہ، شہزاد منظر، نور الہدیٰ سید، علی حیدر ملک، احمد زین الدین، شاہد کامرانی اور شام بارکپوری کے لکھے ہوئے افسانے اس قومی سانحے کی سچی تصویر بناتے ہیں۔ میں جب بھی اس قومی سانحے کی بابت سوچتا ہوں تو مجھے ریاض مجید کی غزلوں کا مجموعہ، ڈوبتے بدن کا ہاتھ یاد آ جاتا ہے۔

ضیا الحق والے اسلامی مارشل لا، جسے امریکی حمایت نے گیارہ سال تک پھیلا دیا تھا، بھٹو کی پھانسی، افغانستان میں امریکی مفادات کے تحفظ کو جہاد قرار دینا، روس کا ٹوٹنا اور ہماری تہذیبی حمیت کا پارہ پارہ ہونا، ایسے سانحات کو لیے ہوئے تھا، جو اُس زمانے کے ادب کا مزاج بدلتے رہے ۔پہلے امریکی جہاد اور پھر دہشت گردی کے خلاف جنگ ایک حربے کے طور پر استعمال کی جانے لگی تو عالمی سامراج کو ہم نوا بھی مل گئے، یہی وہ فکری انارکی کا زمانہ ہے کہ ملکوں ملکوں دہشت گردی پھیلانے اور دہشت زدہ کرکے عالمی وسائل پر قبضہ کرنے کی مہم چلی اور سوچنے سمجھنے والے چکرا کر رہ گئے۔

اُسی زمانے میں میڈیا کے ذریعے کامیاب ذہن سازی کے تجربات ہوئے اور قومی سطح پر بیانیہ تشکیل دینے کی باتیں ہونے لگی۔ ایسے میں ہمارے ادیب الگ تھلگ ہو کر کیسے بیٹھ سکتے تھے، اُنہوں نے اپنے قلم کا حق ادا کیا اور جم کر لکھا۔ لکھتے ہوئے، ان کی ہمیشہ کوشش رہی کہ وہ کمزور کا ساتھ دیں، کیوں ہمارا ادیب سمجھتا ہے کہ طاقتور کی حمایت ادب کا منصب نہیں ہے۔ خالدہ حسین کا افسانہ ’’ابنِ آدم ‘‘ پڑھ لیجئے، اس میں آپ کو دہشت زدہ انسان کا چہرہ اورامریکی فوجیوں کے ہتھے چڑھ کر جنسی تشدد کا شکار ہونے والی عراقی عورت کا چہرہ دونوں نظر آجائیں گے۔ دونوں کے چہرے نفرت اور کرب و اذیت نے بدل کر رکھ دیئے ہیں۔ ہمارا ادب خود کو اس عراقی عورت کے ساتھ پاتارہا ہے، جس پر تشدد روا رکھا گیا تھا۔ دہشت کا اگلا موسم ہماری زمین پر اترا تو سب کچھ خزاں رسیدہ نظر آنے لگا، مسجدوں، امام بارگاہوں، مزاروں پر دھماکے، ڈرون اور خود کش حملے ہماری نفسیات کو تلپٹ کرنے لگے، جہاں جہاں دہشت کی آگ برس رہی تھی، وہاں وہاں سب کچھ حتی کہ انسانیت اور اس کی مسلّمہ اقدار بھی راکھ ہوتی جارہی تھیں۔ ابھی اپنے پیاروں کو دفنا کر لوٹے بھی نہ ہوتے کہ کچھ اور جنازے تیار ملتے، کہیں کہیں تو جنازہ پڑھنے والے بھی دہشت گردوں کا نشانہ ہو جاتے تھے۔ ایسے میں انسانیت پر ایمان متزلزل ہو نے لگا، کہانیاں اور شاعری ایسے میں ان موضوعات سے وابستہ کیسے رہتیں، جو اسے تہذیبی امی جمی والے زمانے میں مرغوب تھے، یہ اپنے مزاج کے اعتبار سے برہم ہوئیں کہ برہم ہونا بنتا تھا ۔

آزادی سے لے کر ٹوٹنے تک اور اب تک کے پر آشوب زمانے کے آتے آتے یوں محسوس ہونے لگا ہے، جیسے دنیا یکدم سکٹر گئی ہے۔ ساری لکیریں مٹ گئی ہیں، ساری شناختیں معدوم ہو گئی ہیں۔ گلوبل ویلج بنتی اس دنیا میں اب اندر کے دُکھوں سےکہیں بڑے دکھ باہر سے آرہے ہیں۔ مارکیٹ اکانومی نے کنزیومر ازم کی جو ہوا باندھ رکھی ہے، عالمی سامراج کا اس سے بھی مفاد وابستہ ہے، اس نے بھی ہمارے ادب میں ایک مزاحمت کا روّیہ پیدا کر دیا ہے، پھر اس دبائو کے زمانے میں ہماری معاشرت کے اندر کے تضادات، فرقہ ورانہ تعصبات، جہالت اور اندر دبی غلاظتیں باہر پھوٹ پڑیں۔

ہم علم، تہذیب اور تربیت سے انفارمیشن ٹیکنالوجی کو غچہ دے کر آگے بڑھ سکتے تھے، مگر اس کے ذریعے ریاستی قوت کو سامراج اور سرمائے نے ہتھیا کر سارے راستے مسدود کر دیئے ہیں، کئی کئی چینلز بظاہر کھلی آزادی کے ساتھ موجود ہیں، مگر فی الاصل ایسا نہیں ہے، پھر یوں بھی ہے کہ ٹی وی کا ریموٹ کنٹرول ہر ایک کے ہاتھ میں یوں آگیا ہے، جیسے بندر کے ہاتھ استرا۔ مناظر بدل رہے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ ثقافتی چولیں بھی ڈھیلی پڑنے لگی ہیں۔

کمپیوٹر کے ہر آئی کون کے پیچھے سے انفارمیشن کا جو سیلاب امنڈا پڑتا ہے، اس کی کوئی تہذیب نہیں ہے، لہٰذا بچی کھچی مثبت روایات بھی اسی ریلے میں غوطے پر غوطہ کھا رہی ہیں۔ ساری انسانیت، بازاری نفسیات اور قبضہ گیروں کی زد پر ہے۔ بجا کہ جارحیت کرنے والے کو دنیا بھر کے سارے وسائل پر دسترس چاہیے۔ یہ بھی درست ہے کہ جنگ اور دہشت اسی کا پروڈیکٹ ہے، مگر اس کا احساس بھی تو ہونا چاہیے کہ ہم ادبدا کر اپنے تضادات کا خود شکار ہو رہے ہیں۔

بنیاد پر ستی سے لے کر دہشت گردی تک ہمارا اپنا چہرہ مکروہ ہو کر سامنے آتا رہا ہے اور آرہا ہے، تاہم یہ امر لائق امتنان ہے کہ دہشت کے اس زمانے میں ہماری شاعری اور ہمارا ادب اس دیو زاد کو نشان زد کرتا رہا اور کر رہا ہے، جو ہماری کہانیوں میں کبھی ’’آدم بو‘ آدم بو‘‘ پکارتے آیا کرتا تھا اور ان تضادات کو بھی، جو ہمارے اندر سے بدبودار گٹر کی طرح اُبل پڑے ہیں۔

اُردوغزل: مقبول ترین شعری صنف
ہماری شاعری کی مقبول ترین صنف غزل تھی ، سال بہ سال وقت گزرتا رہا مگر اس کی مقبولیت میں کمی نہ آئی یہ الگ بات کہ اظہار و بیان کی نئی صورتوں کی تاہنگ بھی اس عرصے میں بڑھی جس نے نظم کو مقبول بنانے میں اہم کردار ادا کیا لیکن اس سب کے باوجود غزل شاعروں کی ترجیح رہی ہے۔ اردو غزل ایک تہذیبی صنف ہے اور اپنی مضبوط روایت رکھنے کی وجہ سے ، ایک ہی وقت میں آسان ترین اور مشکل ترین صنف رہی ہے ۔ غزل کی اس روایت کو بنانے والوں میں میر ،سودا، مصحفی، آتش، مومن، غالب ، یگانہ سے اقبال تک سب نے حصہ ڈالا اور تقسیم تک آتے آتے غزل نہ تو صرف مارے جانے کے خوف سے نکلی ہرن کی دردناک چیخ رہی،نہ محض عورتوں سے باتیں کرنا یا عورتوں کی باتیں کرنایہ الگ بات کہ مجموعی اعتبار سے غزل کو دیکھا جائے تو یہ صنف ایک تہذیب کے مسلسل انہدام کی ایک مسلسل اور دردناک چیخ ہو گئی ہے اور اپنی جمالیات کے اعتبار سے نسائی حسن جیسی لطافتیں اور نزاکتیں رکھتی ہے۔

دلچسپ مشاہدہ یہ رہا کہ قیام پاکستان کے بعد ترقی پسند وں کا ہدف غزل رہی جب کہ غزل نے انہی ترقی پسندوں کے لحن کو قبول بھی کیا اور کلاسیکی روایت کو بدل جانے دیا۔ ویسے غزل کا بدلنا بہت پہلے سے شروع ہو چلا تھا جس میں اقبال نے سرعت پیدا کی اور ترقی پسندوں تک آتے آتے تبدیلی کو بہت نمایاں طور پر دیکھا جاسکتا تھا۔ قیام پاکستان کے وقت صوفی غلام مصطفیٰ تبسم، حفیظ جالندھری، احسان دانش، مجید امجد، میرا جی، فیض احمد فیض، احمد ندیم قاسمی،ساقی فاروقی، ضیا جالندھری اور دوسرے شاعر موجود تھے ، کچھ نمایاں اور کچھ شناخت بنانے کی جدو جہد میں مصروف ۔ اسی زمانے میں عابد علی عابد نے کہا تھا: ’’لوح مزار دیکھ کے جی دنگ رہ گیا/ہر ایک سر کے ساتھ فقط سنگ رہ گیا‘‘اور اسی زمانے میں فیض رومان اورانقلاب کو ہم آہنگ کر رہے تھے :’’ہم نے جو طرز فغاں کی ہے قفس میں ایجاد/فیض گلشن میں وہی طرز بیاں ٹھہری ہے‘‘ تو یوں ہے کہ غزل بدلی مگر اس نے اپنی نزاکتوں کو نہ چھوڑا ۔ انجم رومانی نے کہا تھا:’’ہمیں نے آج تک اپنی طرف نہیں دیکھا/توقعات بہت کچھ زمانہ رکھتا ہے‘‘ تو یوں ہے کہ زمانے کی غزل سے بہت توقعات رہیں مگراس کا بدلنا بھی ایک ادا رکھتا تھا جس نے اس ادا کو نہ سمجھا وہ پٹ گیا۔ عارف عبدالمتین نے کہہ رکھا ہے:’’میں سمندر تھا مگر جب تک رہا تجھ سے جدا/اپنی گہرائی کا خود مجھ کو بھی اندازہ نہ تھا‘‘، ایک تخلیقی انسان سمندر سہی مگر غزل ہی ایسی صنف رہی ہے جو انسان کو اس کے باطن کی گہرائی کی خبر دیتی ہے۔

ظفر اقبال تک آتے آتے غزل کے بدلنے اور نہ بدلنے کا سوال بہت شدت سے سامنے آیا ۔ اس سارے عرصے میں ناصر کاظمی، احمد مشتاق، رساچغتائی، سلیم احمد، محبوب خزاں ، منیر نیازی،جون ایلیا، عطا شاد، احمد فراز، توصیف تبسم ، ریاض مجید،افتخار عارف،بیدل حیدری،علی مطہر اشعر،خورشید رضوی، جلیل عالی ، عبیداللہ علیم، اظہار الحق،عدیم ہاشمی، محسن احسان، پروین شاکر،جمال احسانی،ثروت حسین ،حلیم قریشی ، فیصل عجمی ،خالد اقبال یاسرسے خالد احمد اور غلام حسین ساجد تک مجھے جیسے جیسے نام یاد آتے جا رہے ہیں لکھتا جارہا ہوں ، انہی میں ، اس کشور ناہید کو بھی شامل جانیے جنہوں نے کہا تھا:’’اس قدر تھا اداس موسم گل/ہم نے آب رواں پہ سر رکھا‘‘ اور شاہدہ حسن اور فاطمہ حسن کو بھی۔ تو یوں ہے کہ غزل کا دامن مالامال کرنے والے ان گنت ہے ۔ اور اس باب میں اچھے شاعروں کی ایک قطار ہے ، ایک سے بڑھ کر ایک ۔ غلام محمد قاصرکو میں کیسے بھول رہا ہوں اور محسن نقوی کو بھی۔ تنویر سپرا اور شکیب جلالی نے اپنے مزاج کی الگ غزل کہی اور ہمارے ذہنوں میں اپنے نام محفوظ کر گئے۔

انور شعور کی غزل کے میں عاشقوں میں ہوں ، انورکا ایک شعر ہے:’’ دُرجِ دل ڈھونڈ کر نہال ہوں میں/جیسے دریافت ہو سفینے کی‘‘ تو یوں ہے کہ غزل کے باکمال شاعروں کے ہاں ہر بار آپ کو ایک دفینہ ملے گا اور لطف یہ ہے کہ ہمارے تعلیمی ڈسپلن میں اردو اور سماجی علوم کہیں نیچے چلے گئے مگر شاعروں کے ہاں غزل کہنے کی لگن ویسے ہی برقرار ہے۔ یقین نہیں آتا تو عباس تابش، ذوالفقار عادل، رحمان حفیظ،سجاد بلوچ، طارق نعیم ، اختر عثمان، قمر رضا شہزاد، شاہین عباس، حمیدہ شاہین،ادریس بابر،انجم سلیمی، سعود عثمانی، ضیا ترک،اجمل سراج ، صاحب کس کا نام لوں کس کا نہ لوں ۔ تہذیب حافی سے محسن چنگیزی تک اوراحمد حسین مجاہد سے عمران عامی تک آتے آتے کئی نام ذہن کے افق پر چمکنے لگے ہیں مگر ناموں کا یہ سلسلہ میں یہیں روکتا ہوں کہ فی الاصل مجھے یہاں یہ کہنا ہے کہ اس صنف میں تخلیقی اظہار کرنے والوں میں کمی نہیں آئی اوران ستر برسوں کی مقبول ترین شعری صنف غزل ہی ہے

AIOU Solved Assignment 1 Code 427 Spring 2024

ANS 03

انتظار حسین کی جائے پیدائش، ڈبائی ،ضلع بلند شہر ہے ۔انتظارحسین نے تعلیم میرٹھ میں حاصل کی ۔اور تقسیم کے بعدہندوستان سے رحلت کر کے پاکستان چلے گئے ،اور وہیں پر مستقل سکونت اختیارکرلی۔انھوں نے کئی ایک افسانے لکھے ۔جو کہ اپنی مثال آپ ہے ۔ ان کی تحریر میں بلا کا جادوتھا ۔جس کے ذریعے وہ پڑھنے والوں کو سحر زدہ ہو نے پر مجبورکردیتے ہے۔
ان کی کہانیوں کے بارے میں شمیم حنفی یوں لکھتے ہیں :

ایک نئے افسانہ نگار نے،برسوں پہلے مجھے لکھا تھا….’’ہماری کہانیاں آ پ کو اس وقت تک پسند نہیں آئیں گی جب تک ،برسوں آپ قرۃالعین اور انتظار حسین کے سحر سے نہ نکل آئیں ۔‘‘۱؂
۱؂ہم سفروں کے درمیان ۔۔شمیم حنفی۔۔ص۔۳۵۔۔سن اشاعت۔۲۰۰۵ء۔۔انجمن ترقی اردو (ہند)نئی دہلی ۔)
مندرجہ بالا عبارت سے یہ بات ظاہر ہوتی ہیکہ انتظار حسین کی کہانیوں میں واقعتاًایک جادوہے۔ان کی کہانیوں کا پہلا مجموعہ ’’گلی کوچے‘‘۱۹۵۱ء میں منظر عام پر آیا ۔اس کے بعد ’’کنکری ‘‘۱۹۵۷ء ’’آخری آدمی‘‘۱۹۶۷ء اور ’’شہرافسوس ‘‘۱۹۷۲ء ’’کچھوے‘‘۱۹۸۱ء ’’خیمے سے دور ‘‘۱۹۸۶ء ’’خالی پنجرہ ‘‘۱۹۹۳ء ’’شہزادے کے نام ‘‘۲۰۰۲ء وغیرہ منظر عام پر آ چکی ہیں ۔اس کے علاوہ ان کے ناول ’’چاند گہن ‘‘۱۹۵۳ء ’’دن اور داستان‘‘۱۹۶۲ء’’بستی‘‘۱۹۸۰ء’’تذکرہ ‘‘۱۹۸۷ء ’’آگے سمندرہے‘‘۱۹۹۵ؤغیرہ قابل ذکر ہے۔افسانوں اور ناولوں کے علاوہ انھوں نے اخباروں میں کالم نویسی بھی کی ۔جن میں ذرے ،ملاقاتیں ،بوندبوند وغیرہ شامل ہیں ۔
انتظار حسین ایک سادہ لوح انسان تھے ۔ان کی شخصیت میں کسی طرح کی تصنع وبناوٹ نہیں پائی جاتی ۔ جس طرح ان کا مزاج سادہ ہے،اسی طرح ان کی کہانی بھی تصنع وبناوٹ سے پاک ہے ۔ مقفیٰ ومسجع عبارت آرائی ان کے افسانوں میں نہیں پائی جاتی ۔اور نہ ہی وہ خطیب و مقررنظر آتے ہیں۔سنجیدگی اور متانت ان کے مزاج میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے ۔ وہ صبح سویرے اٹھتے ہیں اور یہ وقت ان کا زیادہ تر لکھنے پڑھنے میں گزرتاہے ۔اور اس کے بعددن کا بیشتر حصہ ان کے اور دیگر کاموں کی مصروفیات میں صرف ہوتا ہے ۔اور شام کے اوقات وہ اکثر اپنے احباب کے حلقے میں گزارتے ہیں ۔یہ ان کی زندگی کا روز مرہ کا مشغلہ ہے ۔انتظار حسین کی عادت میں ایک خاص بات یہ بھی شمار ہوتی ہے کہ وہ چھوٹی سے چھوٹی بات کو بھی بہت سنجید گی اور گہرائی سے سوچتے ہیں،حتیٰ کہ وہ پرندوں کی چہچہاہٹ بھی اگر سنتے ہے ،تو اس کو بھی بغور سنتے ہیں ۔اور ان کے چہچہانے اور خاموشی ،دونوں کا برابر اثر قبول کرتے ہیں ۔اس بات کی وضاحت شمیم حنفی کی اس عبارت سے ہو تی ہے :
’’ایک صبح دلّی میں ہم جامعہ نگر سے اوکھلا نہر اورجمناجی کی طرف جانے والی سڑک پر چہل قدمی کے لئے نکلے اور ایک ہری بھری ڈالی پر فاختاؤں کی برات دکھائی دی تو انتظار حسین نے کہاْ ….نئی شاعری میں فاختہ بولتی کیوں نہیں ؟یہ آوازناصر کی غزل کے ساتھ رخصت ہوئی ۔وہ اس کے بولنے اور چپ رہنے دونوں کا نوٹس لیتا تھا’’فاختہ چپ ہے بڑی دیر کیوں؟۔‘‘ ۱؂
(۱؂ہم سفروں کے درمیان ۔شمیم حنفی۔ص۳۸ ۔۲۰۰۵۔انجمن ترقی اردو(ہند )نئی دہلی) ترقی پسند سے متاثر ہوکر ادیبوں نے جو افسانے لکھے تھے وہ زیادہ تر حقیقت پسند افسانے ہی تھے ،جن میں مزدورو محنت کش طبقے کے حالات کی غمازی کی گئی تھی ،اور مزدور و محنت کش طبقے پر جو ظلم زیادتی ساہوکار وں اور زمینداروں کے ذریعے ہوتی تھی اس کا بیان اکثر اس وقت کے افسانہ نگاروں نے اپنے افسانوں کے ذریعے کیا تھا ۔جس سے اکثر اد یبوں کے بارے میں معلوم ہوجاتا ہے کہ ان کی تحریریں ترقی پسند تحریک سے متاثر ہے ۔لیکن انتظار حسین کی تحریر اپنے آپ میں بالکل الگ ہے۔ان کی تحریریں اکثر ایسی ہوتی ہیں کہ جن سے یہ معلوم نہیں ہو تا کہ انھوں نے یہ تحریر کس سے متاثر ہو کر لکھی ہے ۔ان میں ترقی پسندیت ہے ،یا علامتی ہے ،تجریدی ہے یاجزباتی۔ یہ مسئلہ آج بھی قابل غور ہے ۔ان کی تحریر میں ایک خاص اسلوب پایا جاتا ہے جو بہت ہی کم لوگوں کی تحریر میں پا یاجاتا ہے ۔لیکن اس کے سا تھ ہی وہ سادگی کا دامن اپنے ہاتھ سے چھوڑ تے نظر نہیں آتے ،جو ان کی بالغ نظری اور دور اندیشی کا ثبوت ہے ۔
ان کی افسانہ نگاری اور اسلوب کے بارے میں شمیم حنفی یوں بیان کر تے ہیں : ترقی پسندوں نے ایک ضابطہ بند اقلیم سے رشتہء وفا استوار کر نے پر زور دیا تھا ۔نئے ادیبوں نے اپنی قوت ایجاد اور نئی تکنیکوں کے زعم میں (علامت تجرید)افسانے کو جس حال تک پہنچایا ،وہ سب ہمارے سامنے ہے ۔ انتظارحسین رجعت پسند ہیں کہ ترقی پسند ، کہ جدید ، یہ معمہ بہتوں کے لئے آج بھی حل طلب ہے ۔ایک چہرے میں اتنے چہرے کہ کثرت نطارہ سے انتظار حسین کے بہت سے نقاد پریشان ہو گئے ‘‘۔۲؂ہم سفروں کے درمیان،شمیم حنفی، ص ۴۳۔ ۲۰۰۵ء ۔ انجمن ترقی اردو (ہند )نئی دہلی)
ان تمام باتوں کے علاوہ انتظار حسین میں ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ وہ حقیقت اور تواریخ کو ایک ہی کڑی میں پرونے کا عمل بھی جانتے ہیں ۔لیکن وہ کبھی تاریخی یا حقیقت نگاری کی رو میں نہیں بہتے ۔ بلکہ دونوں کو الگ لگ نظرئیے سے دیکھتے ہیں ،وہ کبھی کبھی تاریخی حوالوں کو نظر انداز بھی کر جاتے ہیں ۔انتظار حسین کو صحیح طریقے سے پہچاننے کے بعد با آسانی یہ قیاس کیا جاسکتا ہے کہ جو طریقہ ترقی پسندیا حقیقت پسند کہانیوں کو لکھنے کا ہو تا ہے وہ بالکل الگ ہے اور یہ بات ان کے مزاج کے خلاف ہے ۔اس لئے ان کے افسانے مضبوط حوالوں اور اپنے مقام ومرتبہ کے مطابق تاریخی تحریروں کا یقین نہیں کرتے ۔اور نہ ہی انھیں اس انداز میں پڑھا جا سکتا ہے جیسے کوئی ناول وغیرہ کو پڑھ سکتے ہے ۔ان کی کہانیوں میں جس مضبوطی کے ساتھ والوں کوشرمندگی،تکلیف اور ڈر محسوس ہوتا ہے ،اس طرح عہد حاضر کے بہت ہی کم لکھنے والوں کی پہنچ بنتی ہے ۔
انتظار حسین اکثر اپنے میں مستغرق رہتے ہیں ،اور اپنے اوقات وہ اپنے مروجہ اصولوں کے مطابق ہی گذار تے ہیں ۔ ان کی باہری آس پاس کی دنیا کا طوفان ان کی خارجی زندگی میں ہی نظر آتا ہے ،جسے وہ اپنی اندرونی زندگی میں داخل نہیں ہونے دیتے ۔ان کی شخصیت بالکل ایک بند کمرے کی مانند ہے،اس بند کمرے کی مانند ۔جس کے راز آسانی سے ظاہر نہ ہوسکتے ہو ۔اسی وجہ سے ان کی تحریریں بھی مثلِ سراب کے ہے جو دور سے پانی نظر آتا ہے ،لیکن پاس پہنچنے پر گرم ریت دکھائی پڑتی ہے۔یا مثلِ جوالا مکھی کے ۔جو باہر سے خاموش ،اور اندر سے لاوا ہوتا ہے ۔اس کے علاوہ ان کی تحریروں میں اکثر وبیشتر چارطرح کے رنگ نظر آتے ہے جو کہ مندرجہ ذیل ہے ۔پہلے درجے کی ان کی کہانیوں میں زیادہ تر معاشرتی رنگ ہی نظر آتا ہے ۔ جس کے ذریعے سے وہ معاشرتی نظام کو ذہن نشین کرانے کی کوشش کر تے ہیں ۔دوسرے نمبر پر ان کی کہانیوں میں رومانیت و اخلاقیت کی منظر کشی ہو تی ہے ۔ جس کے سہارے وہ اخلاق و رومانیت کے زوال و فروج کے قصے بیان کر تے ہیں ۔تیسرے زمرے میں جو کہانیا ں انھوں نے قلم بند کی ہیں ان میں سیاسی ، اور سماجی حالات کو مکمل طریقے سے اجا گرکر نے کی سعی کی ہے۔ کہ ہمارے سماج ومعاشرے ،یا سیا ست میںآج کل کیا کیا تبدیلیاں رونما ہو رہی ہے ۔اور چو تھے درجے کی کہانیوں میں انھوں نے زیادہ تر نفسیات یاپرزور دیا ہے ۔اس کے بر عکس انھوں نے ہندو دیو مالائی کہانیوں اور بودھی جاتک کتھاؤں بھی اپنے افسانو ں کاموضوع بنایا ہے۔ انتظار حسین کا یہ کام بھی قابل قدر ہے انھوں نے اپنی کہا نیوں میں یورپ کے کلچر کو من و عن ہی قبول نہیں کیا ،بلکہ مشرقی ہےئت کی مصوری ان کے افسانوں میں ہر جگہ نظر آتی ہے ۔اس کی وضاحت پروفیسر گوپی چند نارنگ کے اس قول سے ہوتی ہے : انتظار حسین کا یہ کارنامہ معمولی نہیں کہ انھوں نیافسانے کی مغربی ہےئت کو جوں کا توں قبول نہیں کیا ۔بلکہ کتھا کہانی اور داستان و حکایت کے جو مقامی مزاج عامہ اور افتادِذہنی صدیوں کے عمل کا نتیجہ تھے۔ اور مغربی اثرات کی یورش نے جنھیں رد کردیا تھا ، انتظار حسین نے ان کی دانش و حکمت کے جوہر کو گرفت میں لے لیااور ان کی مدد سے مروج سانچوں کی نقلیب کر کے افسانے کو ایک نئی شکل اور نیا ذائقہ دیا ۔‘‘ اردو افسا نہ روایت ا ور مسائل۔مرتبہ گوپی چند نارنگ ۔ص۵۹۰ ۔۲۰۰۸ء۔ایجوکیشنل پبلیشنگ ہاؤس دہلی )انتظار حسین نے اردو داستان و کہانی کو بالکل ایک نئے طریقے سے تخلیق کیا۔ان کے فن میں ایک عجیب کمال یہ بھی نظر آتا ہے کہ انھوں نے کہا نیوں کو صوفیانہ انداز کے ساتھ ساتھ فلسفہ تلاش و جستجو اور بیتابی سے روشناش کرایا ۔انھوں نے موجودہ وقت کے انسانی تقاضوں کو اپنے افسانوں کا موضوع بنایا ۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جو برائیاں انسان اور معاشرے میں رونما ہو رہی تھی وہ تمام تر برائیاں ان کے افسانوں کا مطالعہ کر نے سے عیاں ہو جاتی ہیں ،جس کا وہ ازالہ کہانیوں کے ذریعے سے کرنا چاہتے ہیں۔تاکہ دنیا اور انسانیت باقی رہے ۔

AIOU Solved Assignment 2 Code 427 Spring 2024

ANS 04

مختصر کہانیاں (افسانے) ناول کے مقابلے میں مختصر اور کم پیچیدگی کی حامل ہوتی ہیں اور عام طور سے کسی ایک واقعہ، ایک پلاٹ، ایک سیٹنگ، تھوڑے کرداروں اور وقت کے کم دورانیہ تک محدود ہوتی ہیں ۔لیکن ان کا تاثر گہرا اور دیرپا ہو سکتا ہے ۔

بیانیہ :(Narrative)

 بیانیہ کا لفظ کہانی کے مترادف یا ہم معنی (synonym)کے طور پر برتا جاتا ہے۔

 کہانی کے اس اسلوب کو جس میں فرضی یا حقیقی سلسلہ واقعات کو کسی خاص ترتیب سے فنی یا ادبی روپ دیا جائے بیانیہ کہتے ہیں ۔ یہ تحریری، زبانی، نثر اصناف اور فکشن کیلئے ہی استعمال ہوتا ہے ۔ اس میں عوماً مصنف (ادیب، مقرر یا خطیب) قاری یا سامع سے بلاواسط اور براہ راست مخاطب ہوتا ہے ۔

بیانیہ کی اقسام:

 بیانیہ ایک وسیع مفہوم رکھنے والا لفظ یا اصطلاح ہے، وسیع تر معنوں میں بیانیہ کا اطلاق تمام افسانوی تحریروں پر ہوتا ہے ۔ یہ بلاغت (Rhemtorical modes) کے ذریعوں یا وسلیوں (modes)

میں سے ایک ہے

فکشن (fiction):

فکشن (fictionn) ایسی تصوراتی یا فرضی تحری رکو کہتے ہیں جوفیکٹس (facts) کے برعکس حقیقی اور سچی نہ ہو (لیکن یہ لازم نہیں ہے) ۔ اس کا مقصد لکھنے والے پیغام یا نقطۂ نظر دوسروں تک پہنچانا ہوتا ہے یا یہ فقط وقت گزاری اور تفریح کیلئے بھی ہو سکتی ہے ۔عام طور پر قصہ ،کہانی ،حکایت ،فسانچہ ،ناول ،ناولٹ ،تمثیل ،ڈراما وغیرہ فکشن کی مختلف شکیں ہیں ۔ (تا ہم صرف یہی شکلیں نہیں) وقت کے ساتھ ساتھ اس میں سکرین پلیز ،وڈی وفلمیں ،کارٹوں کتابیں ،آڈیو وڈیو بکس وغیرہ بھی شامل ہو گئی ہیں ۔

نان فکشن (non-fiction):

 فکشن کے برعکس ایسی تحریریں جن کو سچائی کے دعوے کے ساتھ پیش کیا جائے (چاہے وہ سچی ہوں یا نہ ہوں) نان فکشن کہلاتی ہیں ۔

 عام طور پر تاریخ (ہسٹری)، علمی مضامین ،ڈاکو میٹریز ،سائنسی مقالات ،سوالخ عمریاں ،نصابی کتب ،فوٹوز ،وڈیو گیمز، کمپیوٹر گیمز ،بلیو پرنٹس ،سفر نامے ،صحافتی تحریریں وغیرہ نان فکشن کی ذیل میں آتے ہیں ۔سادگی ،سچائی اور صفائی (clarity) اس کی اہم ترین خصوصیات ہیں ۔

افسانہ (SHORT STORY):

 اردو میں فکشن کیلئے افسانہ کی اصطلاح رائج ہے جس میں فکشن یا افسانوی ادب کی دیگر ساری انواع (modes) قصہ ،کہانی ،ناول ،ناولٹ ،مختصر افسانچے ،اور سکرین پلے سب ہی شامل تھے لیکن آہستہ آہستہ لفظ صرف شارٹ سٹوری (مختصر کہانی) کیلئے استعمال ہونے لگا ہمارے ہاں کہانی کا لفظ بھی انہی معنوں میں استعمال ہوتا ۔لیکن بعض لوگ (میرے سمیت) کہانی اور افسانے میں فرق روا رکھتے ہیں اس طرح کہانیاں واقعہ نگاری کے قریب ہوتی ہیں ۔یہ سیدھی ،سادہ اور حقیقت پر مبنی ہوتی ہیں جیسے سچی کہانیوں اور تین عورتیں تین کہانیاں وغیرہ ۔ اس کے برعکس جس کہانی میں لکھنے والا زیب داستان اور معنوں گہرائی کیلئے اپنا فن ،فکر ،تخیل ،تجزیہ اور نقطہ نظر شامل کر کے اسے خلاقانہ اور فنی پیش کش بنادے اسے فسانہ کہیں گے

 اسی لیے عام گفتگو ،میں بھی لوگ کہتے ہیں کہ فلاں نے تو معمولی سی بات کا افسانہ بنا دیا ہے ۔ یوں تو انسائے لطیف یا نثری نظم کی طرح کے پلاٹ ،کردار اور کہانی پن کے بغیر بھی افسانے لکھے گئے اور اینٹی سٹور پز بھی لیکن میرے نزدیک افسانے میں کہانی یا کہانی کے عنصر کا ہونا ضروری ہے ۔ دلچسپی یعنی ریڈایلبٹی ،اختصار ،ایجاز اور وحدت تاثر اس کی اہم خصوصیات ہیں ۔

افسانے کی تریف:

 ایک مغربی دانشور نے افسانے (مختصر کہانی ) کی ایک مختصر تعریف یوں کی کہ ایک مختصر کہانی ایسی کہانی ہے جو مختصر ہو۔

(a short story a story which is short)

 لیکن سوال یہ ہے کہ کتنی مختصر ؟ وقت اور دورانیے پر ماہرین کا ہمیشہ اختلاف رہا اور یہ کہانی کو پہچاننے کا کوئی اچھا پیمانہ ثابت نہیں ہوا ۔ایک امریکی نقاد w.b.pitkin نے بھی نہایت اختصاد سے کام لیتے ہوئے کہا کہ

 The Stort story is a narrative drama with a single effiect

 ظاہر ہے ایسی تعریفیں ،آسان اور دلچسپ ضرور ہیں لیکن مکمل نہیں ۔ایک اور نسبتاً جامع رائے ملا خطہ ہو:

 سچی بات یہ ہے کہ افسانے کی ایسی کوئی مخصر ،جامع اور ہر لحاظ سے مکمل کرنا جس میں اس کی ساری خصوصیات سما جائیں آسان نہیں ہے ۔ ہر بار کچھ نہ کچھ رہ جاتا ہے ۔تا ہم یہ کہا جا سکتا ہے کہ:

 ’’زندگی کے کسی ایک پہلو ،ایک واقعہ ایک جذبہ ،ایک احساس ،ایک خیال ،ایک تاثر ،ایک مقصد یا ایک ذہنی کیفیت کو ایجاز و اختصار کے ساتھ کہانی کی شکل میں اس خلاقاہ اور فنی طریقے سے بیان کرنا کہ اس میں اتحاد تاثر پیدا ہو جائے جو پڑھنے والے کے جدذبات و احساسات پر اثر انداز ہو ،افسانہ کہلاتا ہے‘‘

افسانے کا مقصد:

 افسانے کا مقصد تفریح اور وقت گزاری بھی ہو سکتا ہے لیکن یہ حیات انسانی کا عکاس اور نقاد بھی ہوتا ہے ۔آپ نئے لوگوں اور جگہوں سے تعارف حاصل کرتے ہیں ۔ ان سب لوگوں سے ملتے ہیں مگر ان کے بارے میں کچھ نہیں جانتے ۔ آپ ان لوگوں کی زندگی گزار سکتے ہیں جنہیں آپ نے دور سے دیکھا ہے ۔ اس طرح آپ اپنے آپ سے باہر نکل کر دوسرے کے بارے میں سوچنا شروع کرتے ہیں اور آپ کہانیوں کے ذریعے دنیا اور لوگوں کو زیادہ بہتر طریقے سے جانتے لگتے ہیں ۔ آپ کو زندگی کے بہت سے گر معلوم ہوتے ہیں اور آپ اپنی زندگی اور دنیا کو بہتر بنانے کی کوشش کر سکتے ہیں ۔

مختصر افسانہ کا موضوع (theme):

 افسانے کا کوئی مخصوص موضوع نہیں ہو تا ۔ زندگی اور سوسائٹی (بلکہ کا ئنات) سے متعلق کوئی بھی واقعہ ،جذبہ ،احساس ،تجربہ ،کیفیت ،مشاہدہ ،نفسیاتی ،فکری یا روحانی نکتہ افسانے کا موضوع بن سکتا ہے ۔ دوسرے لفظوں میں افسانہ جس مقصد ،اصلاحی یا فکری پیغام ،خیال یا تھیم (آئیڈیا) کی خاطر لکھا گیا وہی اس کا موضوع تھیم ہو گی لیکن یہ نامحسوس طریقے سے اس میں مستور ہوگا ۔ادبی محفوں اور تنقیدی بحثوں میں ہم اکثر افسانے کے موضوع کے تعین کی کوشش کرتے ہیں ۔

 ایک بات کا یہ ذکر یہاں ضرورت ہے کہ حقیقت پسندی کے موجود دور میں بعض لوگوں کو خیال ہے کہ کردار کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے لیکن سچی بات یہ ہے کہ آج کی نئی نسل میں ہر جگہ پلاٹ ،سسپنس اور جدوجہد (ACTION) کی کہانیوں مقبول ہیں اور ڈراموں ،فلموں اور ڈائجسٹوں کو بھی ان کی ضرورت رہتی ہے ۔ان میں کردار بہر حال موجود ہوتا ہے مگر کردار کے نفسیاتی مطالعہ کی بجائے اب ہم تھیمز (آئیڈیاز) کے زمانے میں ہیں ۔ جو کردار نگاری اور مخص قصہ گوئی سے زیادہ اہم ہے ۔ بے شک تھیم کو بھی کردار اور پلاٹ کی ضرورت ہوتی ہے لیکن موضوع یا تھیم خود اپنا پلاٹ اور کردار تخلیق کر لیتی ہے ۔

افسانے کے بنیادی اجزاء (elements of fiction):

 افسانے کے بنیادی اجزاء یا عناصر کے بارے میں مختلف ماہرین ،فکشن کے اساتذہ اور لکھنے والوں کی آراء میں اختلاف پایا جا تا ہے ۔بعض کے نزدیک فکشن کے تین اجزاء پلاٹ ،کردار اور سیٹنگ (جگہ اور فضا) اہم تر ہیں ۔ بعض کے خیال میں اس میں نکتہ نظر (پوائنٹ آف ویو) کو بھی شامل ہونا چاہیے کہ افسانہ کسی کردار کے پوائنٹ آف ویو سے لکھا جا رہا ہے ۔ بعض ماہرین فن کا خیال ہے کہ مکالمہ بھی بے حد اہم جزو ہے ۔مرکزی خیال یا تھیم اور ٹیکنیک یا سٹائل کو بھی بعض ماہرین اہم تصورکر تے ہیں ۔ ان پانچ اجزاء میں سے کردار ’’کون‘‘ ،پلاٹ ’’کیا اور کیوں ‘‘سیٹنگ’’ کب اور کہاں ‘‘اور سٹائل ’’کیسے‘‘ہے ۔تھیم کو آپ وی مرکزی خیال کہہ سکتے ہیں جس کے گرد لکھنے والا کہانی بنتا ہے ۔

 ایک دوسرے دانشور اور ماہرین کے نزدیک افسانے کے اہم اجزائے ترکیبی (Elements) درج ذیل ہیں :

1 -پلاٹ – ۲۔ کردار ۳۔سینٹگ یا فضا ۴۔ نقطہ نظر ۵۵ اسلوب نگارش ،موڈ اور زبان وبیان ۶ ۔ موضوع ۷ علامت نگاری ،تمثیل اور عکس

پلاٹ:

 پلاٹ افسانے یا کہانی کا بنیادی جزو ہے ۔یہ کہانی کا خاکہ ہے یہ واقعات ،سلسلہ واقعات اور جدوجہد یا عمل کو ترتیب دینے کا نام ہے ،جس سے کہانی میں معنی اور اثر پیدا ہوتا ہے ۔یہ واقعات مرکزی کرادر کو پیش آنے والے تصادم یا مشکلات سے پیدا ہوتے ہیں جو یا تو بیرونی عناصر جیسے موسم ،زلزلہ ،بیماری یا موت کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں یا کسی دوسرے کردار کی مخالفت ،لالچ ،مفاد پرستی اور بے وفائی کی وجہ سے، چوں کہ مرکزی کردار ان تصادمات سے نپٹنے کیلئے جدوجہد کرتا ہے اس لیے پلاٹ وجود میں آتا ہے ۔پلاٹ سادہ، پیچیدہ ،ڈھیلا ڈھالا اور غیر منظم ہو سکتا ہے ۔ بعض کہانیوں میں مصنف یہ واقعات منطقی ربط کے ساتھ سلسلہ وار جیسے کہ وہ پیش آئے بیان کرتا چلا جاتا ہے ۔لیکن بعض کہانیوں میں فلیش بیک کی تیکنیک استعمال کرتے ہوئے پہلے پیش آ چکے واقعات بعد میں بیان کیے جا سکتے ہیں ۔

 قریب سے دیکھیں تو پلاٹ عمل اور ردعمل پر مشتمل ہوتا ہے ذرا دور سے دیکھیں تو پلاٹ کا ایک آغاز ایک درمیان اور ایک انجام ہوتا ہے ،پلاٹ کو عام طور پر ایک قوس سے ممشتل کیا جاتا ہے ،منظر یا سین بھی اس کا حصہ ہے ۔منظر ڈرامے کا عنصر ہے ،ہم سب ہر لمحہ کسی منظر میں ہو تے ہیں اور فلم کی سٹلز کی طرح منظروں میں حرکت کرتے ہیں ،افسانے کی بیانیہ ساخت عام طور پر کلائمکس کے حوالے سے ہوتی ہے ۔

 ایک روایتی افسانے میں آہستہ آہستہ مرکزی کردار کیلئے واقعات میں الجھنیں اور پیچیدگیاں پیدا ہونے لگتی ہیں جو انتہائے تصادم یا نقطہ عروج (کلائمکس) پر جا پہنچ جاتی ہیں ۔کلائمکس کے بعد سلجھاؤ کا عمل شروع ہوتا ہے ۔اور آخر کار معاملات جن کے سدھرنے کی بظاہر کوئی امید نہیں ہوتی ، سلجھ جاتے یا ہمیشہ کے لیے بگڑ جاتے ہیں اور افسانے کا اختتام ہو جاتا ہے

کردار یا کردار کی پیش کش (characterisation):

 کردار کو افسانے کا نہایت بنیادی جزو قرار دیا گیا ہے ۔یہ کہانی کے اندر جدوجہد میں مصروف شخص یا اشخاص ہو تے ہیں ۔لیکن یہ انسانی کرداروں کے علاوہ بھی ہو سکتے ہیں ۔کرداروں کی کئی قسمیں ہو سکتی ہیں ۔

۱۱۔بیان کنندہ (جس کے پوائینٹ آف ویو سے کہانی یا واقعات کو دیکھا اور بیان کیا جاتا ہے) یہ کہانی کا مرکزی کردار بھی ہو سکتا ہے اور اس کے علاوہ بھی ۔

۲۔ کہانی کا مرکزی کردار (Portagonistt) جیسے فلم یا ڈرامے کا ہیرو

۳۔مرکزی کردار کا حریف (A ntagonist)

۴۔ ادنیٰ کردار (Minor Characterr) کہانی کو آگے بڑھانے والے مددگار اور کم اہمیت کے حامل کردار ۔

۵۔مزاحم کردار (Foil Characterr) جو مرکزی کردار کے ارادوں اور عمل میں مزاحم ہوں ۔

۔ماحول یا فضا (setting):

 سیٹنگ کا کہانی کے مقام (جگہ) ،وقت اور زمانے سے تعلق ہے ۔یہ جگہ حقیقی یا فرضی بھی ہو سکتی ہے اور ہماری دنیا کے علاوہ کائنات کا کوئی دوسرا مقام بھی ہو سکتا ہے، علامہ اقبال کی مشہور نظم ’’حقیقت حسن ‘‘میں ایک بہت خوبصورت ڈراما ہے جو بیک وقت زمین اور افلاک پر کھیلا گیا۔

۔ بیان کنبدہ اور نقطہ نظر کردار ((Polit of view character):

 ہر کہانی بیان اپنے کنندہ کا نقطہ نظر پیش کرتی اور اسی کے نقطہ نظر سے لکھی جاتی ہے وہی واقعات کو سنتا ،دیکھتا اور محسوس کرتا اور ہمیں اپنے نقطہ نظر سے چیزوں کے بارے میں بتاتا ہے ۔بیان کنندہ خود لکھنے والا بھی ہو سکتا ہے اور کہانی کا کوئی دوسرا کردار بھی ،نقطہ نظر مختلف طریقوں سے پیش کیا جا سکتا ہے ۔بیان کنندہ کے لئے زیادہ تر صیغہ متکلم (میں یا ہم) اور صیغہ غائب (وہ) استعمال کیا جاتا ہے شاز ہی صیغہ حاضر (تم)۔ اس کے علاوہ ضرورت کے مطابق یہ کسی ناقابل اعتبار کردار کے ذریعے بھی بیان ہو سکتی ہے اور شعور کی روکی تکنیک کے ذریعے بھی ۔جس میں جیسے جیسے خیالات ذہن میں آتے جاتے ہیں انہیں داخلی مونو لاگ (خود کلامی) اور تلازمہ خیال (مونتاج) کے ذریعے پیش کر دیا جاتا ہے۔

۔اسلوب نگارش ،موڈ اور زبان و بیان ((style,tone&languge):

کہانی کے اجزائے ترکبی میں اسلوب بھی ایک اہم جزو ہے ۔

 افسانے میں جس انداز یا سلیقے سے قصہ بیان کیا جاتا ہے اور شعوری یا غیر شعوری طور پر ادیب جس قسم کی زبان ،انداز بیان ،گرامر ،فقروں کے ساخت ،لطیفیات ،پیراگرافنگ اور لب و لہجہ (ڈکشن) اختیار کرتا ہے اور اس کے اسٹائل یا اسلوب پر دلالت کرتا ہے ۔عام طور پر ہر لکھنے والا اسلوب کے حوالے سے الگ پہچان رکھتا ہے ۔

ٹیکنیک (TECHNIQUE):

 مصنف کہانی کے واقعات کو جس طریقے ،سلیقے اور فنی ترتیب سے پلاٹ میں پیش کرتا ہے اسے ٹیکنیک کہتے ہیں ۔ ہر موضوع اور مواد کے مطابق اس کی ایک بہتری ٹیکنیک موجود ہوتی ہے اسے دریافت کر لینا ایک اچھے ادیب کا کام ہے ۔مواد کے تقاضوں کے مطابق موزوں تر ٹیکنیک سے افسانے کا تاثر گہرا ہو جاتا ہے ۔عموماً بیانیہ تکنیک استعمال کی جاتی ہے جس میں واحد غائب یا واحد متکلم و اقعات بیان کرتا چلا جاتا ہے ۔خطوط کے ذریعے بھی واقعات بیان ہوتے ہیں جو سادہ مگر دلچسپ ٹیکنک ہے ۔ڈائری اور روزنامچے کے ذریعے بھی واقعات نگاری کی جاتی ہے ،سادہ بیانیہ کے علاوہ علامتی ،استعاراتی اور تمثیلی ٹیکنیکوں کو استعمال کیا جاتا ہے ۔

زبان و بیان:

 افسانہ لکھنے کیلئے مناسب تعلیم اور مطالعہ ضروری ہے ۔ اس کیلئے لکھنے والے کا اچھا انشاپرداز ہونا ضروری ہے وہ عام علمی اور ادبی الفاظ و اصطلاحات کا مفہوم جانتا ہو اسے فکشن کی مخصوص زبان اور لہجے کا علم ہو ۔ اسے کہانی کہنے کے فن سے دلچسپی اور آگاہی ہو ۔اس میں دیکھے ہوئے مناظر ،اشخاص اور باتوں کو ہو بہو لفظی تصویروں میں دوبارہ دیکھانے کی صلاحیت ہو ۔

جدیدر ججانات:

 نئے علمی موضوعات اور نظریات کی روشنی میں افسانے میں ہر دور میں اور ہر سطح پر تبدیلیاں آتی رہیں ۔یہ کسی صنف ادب کے ارتقا کے لیے ضروری بھی ہوتا ہے کہ وہ کسی مقام پر جمود کا شکار نہ ہو اور فکر ،موضوع ،ٹیکنیکی ،اسالیب اور نئے رجحانات سے خود کو دور یا بے خبر نہ رکھے ۔چنانچہ ساٹھ کی دہائی میں اردو افسانہ بھی نئے رجحانات سے روشناس ہوا ۔ اور علامتی ،استعارتی اور تجریدی افسانے لکھنے جانے لگے ۔ایسے افسانے کو علامتی افسانے کہا جاتا ہے ۔

علامت نگاری (Symbolism):

 جب کوئی لفظ یا چیز اپنے لغوی معنوں کے علاوہ وسیع تر اور مخصوص معنوں بھی استعمال ہو تو اسے علامت کہتے ہیں۔ لفظ کے معنی دو طرح کے ہوتے ہیں ایک لغوی اور ظاہری اور دوسرے باطنی جن کا کوئی مخصوص پس منظر ہوتا ہے یا اس ہے کوئی معاشرتی ،تہزیبی ،اساطیری ،مذہبی یا ادبی حوالہ یا واقعہ وابستہ ہوتا ہے اس طرح لفظ یا چیز کو استعمال کرنے سے جو جسے وسیع تر مفہوم حاصل ہوتا ہے اسے علامتی مفہوم کہتے ہیں اور علامتوں کو برتنے کے اسلوب کو علامت نگاری یا سمبلزم ۔

تمثیل نگاری (Allegory):

 تمثیل کا لفظ مثل سے لیا گیا ہے ۔ایک ایسی حکایت یا کہانی جو کسی دوسری سیاسی ،مذہبی ،اخلاقی یا فلسفانہ صورت حال کی مثل ہو اور اس پر پوری طرح منطبق ہو سکے ۔دوسرے لفظوں میں یہ اپنی اصل کہانی کے علاوہ ایک علامتی مفہوم بھی رکھتی ہو۔ علامتوں کی طرح تمثیلیں بھی شخصی ،معاشرتی ،تمدنی ،اساطیری اور عالمی ہو سکتی ہیں ۔

تجریدیت (Abstractness):

 یہ اصلاح مصوری سے ادب میں آئی ہے ۔ تجسیم کے برعکس یہ اشاراتی انداز بیان ہے ۔عام طور پر ایسی کہانیوں پلاٹ ،موضوع اور کرداروں کے بغیر ہوتی ہیں ۔واقعات اور تاثرات کو اشاروں کنایوں سے بیان کیا جاتا ہے اس لیے اکثر ابلاغ کا مسئلہ پیدا ہو جاتا ہے ۔

شعور کی رو (Stream of Consciousness):

 جیسے جیسے خیالات لکھنے والے کے ذہن میں آتے ہیں وہ انہیں داخلی مونولاگ یا خود کلامی کے انداز میں لکھتا چلا جاتا ہے ،تلازمہ خیال بھی اس کا ایک انداز ہے ۔بات سے بات پیدا ہوتی چلی جاتی ہے اور مجموعی طور پر تحریر میں ایک تاثر ساپیدا ہو جاتا ہے

 یاد رہے کہ ساٹھ کہ دہائی میں اردو افسانے میں علامت نگاری کا جو رجحان عام ہوا تھا اسے عوام اور بعض نقادوں نے فوری طور پر قبول نہیں کیا تھا کیوں کہ نئے تجربوں کے دور میں جیسا کہ بالعموم ہوتا ہے اور اردو افسانہ بھی افراط و تفریط کا شکار ہوا اور اینٹی سٹوری اور کہانی کے بغیر انشائے لطیف یا نثری نظموں کی طرح کے افسانے بھی لکھے گئے لیکن آہستہ آہستہ ان نئے تجر بات میں پیچدگی اور اعتدال آتا گیا اورقارئین بھی وقت کے ساتھ ساتھ نئے انداز کی کہانیوں سے مانوس ہونے لگے ۔ستر کی دہائی تک آتے آتے اردو افسانے میں سارے اسالیب ایک دوسرے میں مدغم ہو گئے اور ایک نہایت معتدل اور متوازن اسلوب غالب آگیا جس میں قصہ یا کہانی پن تو موجود ہوتا ہے مگر اسے نئے انداز سے پیش کیا جاتا ہے، افسانوں میں جدت اب صرف اسلوب تک محدود نہیں بلکہ معنی کے لحاظ سے بھی نئے خیالات کو افسانے کا معضوع بنایا جاتا ہے۔

AIOU Solved Assignment Code 427 Autumn 2024

ANS 05

ڈرامہ ادب کی ایک مقبول اور قدیم صنف ہے۔ مغرب میں یونان ڈرامے کے فن کا مرکز تھا۔ ایس کائی لیس، سوفو کلیز ،اسٹو فنز اور پیڈیز جیسے مشہورِ زمانہ ڈرامہ نگار اسی قدیم سرزمین کے فرزند تھے ۔

ہندوستان میں بھی ڈرامے کی تاریخ دو ہزار برس پرانی ہے ۔سنسکرت زبان کے ڈرامہ نگار بھبھوتی اور کالی داس ڈرامے کی دنیا کے روشن آفتاب و مہتاب کی حیثیت رکھتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ اردو ڈرامہ سنسکرت ڈرامہ نگاری کے مرہونِ منت ہے۔

ہندو دھرم اور سماج میں شری کرشن جی اور رام چندر جی کی لیلاؤوں کیلئے ڈرامے ہی کو ذریعہ بنایا گیا تھا۔

کالی داس کے ڈرامے مالویکی، اگنی مترا ، شکنتلہ اور وکرم روشنی شاہکار ڈرامے تصور کئے جاتے ہیں ، جن میں شکنتلہ کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔

ڈرامے کی تعریف:

بقول ارسطو ’’ڈرامہ انسانی اعمال کی نقال ہے۔

یا۔۔۔

ڈرامہ انسانی زندگی کی عملی تصویر ہے۔

یا۔۔۔

زندگی کا کوئی پہلو ڈرامے کامو ضوع بن سکتا ہے اس کی تکمیل ادبی اصنا ف کی طرح محض الفا ظ سے نہیں ہو تی بلکہ مجسم عمل کی ضرورت پڑتی ہے۔

اردو کا پہلا ڈرامہ:

اردو ڈرامہ نگاری کی تاریخ میں پہلے ڈرامے کے تعین کیلئے کوشش و جدو جہد جاری ہے ۔۔ مختلف محققین نے مختلف ڈراموں کو اردو ادب کا پہلا ڈرامہ قرار دیا ہے ۔ مثلاً عبد الحئ ،سید محمود، ڈاکٹر اعجاز حسین اور مولانا حامد حسن قادری نے کالی داس کے ڈرامے شکنتلہ کو ہی اردو ادب کا اولین ڈرامہ قرار دیا ہے۔ پروفیسر مسعود حسین اور ڈاکٹر اشرف نے نواب واجد علی شاہ کے ڈرامے ’’ رادھا کرشن ‘‘کو اولین ڈرامہ قرار دیا ہے۔ بادشاہ حسین نے ممبئی میں اسٹیج کئے گئے ڈرامے ’’بابو جالندھر ‘‘ کو اولین ڈرامہ تسلیم کیا ہے ۔پروفیسر احتشام حسین نے ’’ راجہ گوپی چندر ( ۱۸۵۲) ‘‘کو اولین ڈرامہ تسلیم کیا ہے۔ ڈاکٹر رام بابو سکسینہ اور ڈاکٹر ابو اللیث صدیقی نے امانت لکھنوی کے ڈرامے ’’ اندر سبھا (۱۸۵۳) ‘‘ کو اولین ڈرامہ تسلیم کیا ہے ۔

رہسوں اور سبھاؤں کا دور:

بعض ناقدین کے مطابق اردو ڈرامے کے باقاعدہ آغاز کا سہرا واجد علی شاہ اختر پیا کے سر ہے۔ لکھنؤ کا یہ نواب رقص و سرور کا دلدادہ تھا ۔رام لیلا کی محافل سے متاثر ہو کر اس نے بھی شاہی قلعے میں رقص ونغمے کی محافل سجائیں ۔ ان محافل کو باقاعدہ اسٹیج کیا جانے لگا اور ان کا نام ’’رہس ‘‘ رکھا گیا۔

واجد علی شاہ نے اپنے پہلے مثنوی ’’ افسانہ عشق ‘‘ کو اس طرز پر لکھا اور اسٹیج کیا ۔اس کے علاوہ ان کا ڈرامہ ’’ رادھا کرشن کنہیا ‘‘ لکھنؤ باغ میں اسٹیج کیا گیا۔

واجد علی شاہ کے دور میں ہی امانت لکھنوی نے اپنا منظوم ڈرامہ ’’ اندر سبھا‘‘ تحریر کیا جو کہ رقص وسرور کی ہنگامہ آرائیوں پر مشتمل تھا۔ ابتدائی بند ملاحظہ ہو۔

سبھا میں دوستو اندرونی آمد آمد ہے

پری جمالو کے افسر کی آمد آمد ہے

خوشی سے چہچہے لازم ہے مورت بلبل

اب اس چمن میں گلِ تر کی آمد آمد ہے

واجد علی شاہ کی سرپرستی میں اور بھی ڈرامے ہوئے جن میں عیش و نشاط کا سامان بہم تھا۔ ’’مگر اندر سبھا ‘‘ سارے ہندوستان میں بہت مقبولیت حاصل ہوئی۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ہندوستان کی مقامی زبانوں ’’ دیونا گری ،گورمکھی اور گجراتی ‘‘ میں اس ڈرامے کے ترجمے ہوئے۔ اس کے علاوہ غیر ملکی زبانوں میں بھی اس کے ’’ چالیس ‘‘ ایڈیشن شائع ہوئے۔

زبا ن و بیان سلا ست ،شگفتگی اور روانی کی وجہ سے اندر سبھا کی مقبو لیت کو دیکھتے ہو ئے پیر بخش کا نپو ری نے ’’نا گرسبھا‘‘ لکھا۔ ۱۸۵۶ میں ما سٹر احمد حسین کا ’’بلبل بیمار‘‘ ایدل جی کھوری کے ’’خورشید‘‘ اور ’’حا تم ‘‘ ’’ ہیرا ‘‘اور پگلا حجا م اسٹیج ہو ئے۔ ’’ ہیرا ‘‘ میں سیلانی کا کردار اور ’’ پگلا حجا م‘‘میں حجام کا کردار خود ایدل جی کھوری نے ادا کیا۔

اردو ڈرامے کے ارتقاء میں تھیٹریکل کمپنیوں کا کردار:

سبھاؤں خصوصاً ’’اندر سبھا ‘‘ کی کامیابی کے بعد ہندوستان کے طول و عرض خصوصاً ممبئی کے پارسیوں کی توجہ اسٹیج اور ڈراموں کی جانب مبذول ہو گئی۔ اس کے علاوہ جنگل میں بھی ڈرامے کو اسٹیج کرنے کا رواج عام ہوا۔ جسکا ذکر ’’ عشرت رحمانی، پروفیسر مسعود حسین رضوی اور دیگر ناقدین ‘‘ نے اپنے مضامین میں کیا ہے ۔

اس دور کے ڈرامہ نگار درج ذیل ہیں

رونق بنارسی (حاتم طائی عرف افسر سخاوت ) ۔حسینی میاں ظریف (نیرنگ عشق عرف گلزارِ عِصمت )،حافظ محمد عبداللہ (پسندیدہ آفاق معروف بہ علی بابا و چہل قزاق ) ، سید مہدی حسن احسن لکھنوی (دستاویزِ محبت ) ،پنڈت نرائن پرشاد بیتاب دہلوی (مہا بھارت ،امرت ،کرشن سوامی ) ، مستی الف خان حباب( شررِ عشق) ، عباس علی( گل رو زرینہ) ، مرزا نظیر بیگ نظیر ( فسانہ عجائب ناٹک معروف بہ جان عالم و انجمن آراء) ، امراؤ علی ( ) ، طالب بنارسی ( لیل و نہار ، راجہ گوپی چند، دلیر دل شیر عرف قسمت کا ہیر پھیر) اور نسروان جی آرام ( گل بکاؤلی ) ۔

ڈرامے کے ارتقاء میں اردو ڈرامے کے شیکسپیر آغا حشر کا شمیری کا حصہ : (۱۸۷۹ تا۱۹۳۵)

اردو ڈرامہ ابھی احسن لکھنوی ، پنڈت نرائن بیتاب دہلوی اور طالب بنارسی کی نگارشات کی زد میں تھا ۔سارا ہندوستان ان کے رنگ و آہنگ میں مست تھا۔ کہ ڈرامے کی دنیا میں ایک ایسا آفتاب طلوع ہوا جس کی روشنی سے دیگر تمام ستاروں کی روشنی ماند پڑ گئی۔

یہ شخص اردو ڈرامے کا شیکسپئر آغا حشر کاشمیری تھا۔جس نے شیکسپئر کے ڈراموں کو اس خوبصورتی سے اردو میں ڈھالا کہ اس کی روح بھی قائم رہی اور اس میں مشرقی تمدن بھی سما گیا۔

ان کے ڈراموں کی فہرست طویل ہے ،مگر مشہور ڈرامے درج ذیل ہیں:

سفید خون ۔۔خوبصرت بلا ۔۔ آنکھ کا نشہ۔۔ ترکی حور۔۔ میرِ ہوس۔۔ یہودی کی لڑکی ۔۔ بلوا منگل عرف بھگت سور داس ۔۔ نعرہ توحید۔۔ سنسار چکر۔۔رستم سہراب۔

’’آفتابِ محبت ‘‘ ان کا پہلا ڈرامہ ہے جو احسن لکھنوی کے چیلینج پر لکھا۔

انکا پہلا کمرشل ڈرامہ ’’ مرید شک ‘‘ ہےجو الفریڈ تھیٹریکل کمپنی کیلئے لکھا جس کے مالک کاوس جی کھٹاؤ تھے۔

ان کا سب سے پہلا ہندی ڈرامہ’’ بلوا منگل عرف بھگت سور داس ‘‘ہے جو اپنی اشتراکی کمپنی انڈین شیکسپئر تھیریٹیکل کمپنی کیلئے لکھا۔اس کمپنی کی بنیاد راجہ راگھو راؤ کی شراکت میں ۱۹۱۰ میں ڈالی تھی۔

ان کا پہلا مجلسی ڈرامہ سلور کنگ عرف نیک پروین تھا جو ۱۹۱۰ میں اسٹیج کیا گیا تھا۔

حشر کے علاوہ بیسویں صدی کے دوسرے ڈرامہ نگار درج ذیل ہیں۔

محمد ابراہیم محشر انبا لوی ،رحمت علی ،دُوَرِکا پَرشاد اُفق،غلام علی دیوانہ ، مرزا عباس اور آغا شاعر دہلوی بہت مشہور ہوئے۔

بیسویں صدی کے وسط میں ڈرامے کا فنی و ادبی ارتقاء :

آغا حشر کے بعد اردو ڈرامے کی مقبولیت پر حکموں نے قبضہ کر لیا ۔لہٰذاڈرامہ تجارت کے ہاتھوں سے نکل کر خلص فنی و ادبی نگاہوں کا مرکز بن گیا۔ اس دور کے فنی و ادبی ڈرامہ نگار ذیل میں درج ہیں جو کہ بہت مشہور ہوئے۔

مولانا عبد الحلیم شرر( شہیدِ فا )۔مولانا محمد حسین آزاد( ڈرامہ اکبر )۔ مرزا ہا دی رسو ا(مرقع لیلی مجنو ں) احمد علی شوق قدوائی (قاسم و زہرا) ۔ مولانا ظفر علی خان ( جنگ ِ روس و جاپان )۔کرشن چندر ( زخمی پنجاب )۔ منشی امراؤ علی ( البرٹ )۔

جدید ڈرامہ نگاری کا آ غاز اور امتیا ز علی:

جدید ڈرامہ نگاری کا آغا ز امتیا زعلی تاج جیسے ڈرامہ نگار سے ہو تا ہے ان کا ڈرامہ انا ر کلی (۱۹۳۲)میں طبع ہوا یہ دور جدید کا سنگِ میل ثا بت ہوا۔

بقول احمد سلیم:

انار کلی ڈرامہ اپنی کردار نگا ری مو ضوع اور مقصد کی ہم آہنگی اور ادبی حسن کی بدولت بے مثال کا رنا مہ ہےــ

جدید ڈرامو ں میں حکیم شجاع کا (باپ کا گناہِ ) مجیب عالم کا ( انجام ) ڈاکٹر عابد حسین (پردہ غفلت) جیسے نما یا ں نام ہیں۔

یک با بی ڈرامےاور مغربی اثرات :

مغربی علوم و فنو ن کی زیر اثر یک بابی ڈرامے کی ابتدا ء ہو تی ہے۔اس فن کا فرو غ بھی تراجم سے ہوا۔اس میں امتیا ز علی تاج کے علا وہ ڈاکٹر اشتیا ق حسین کا’’نقش آخر’ ’ شاہد دہلوی کا ’’کھڑکی‘‘ عابد علی عابد،،اشفاق احمد، احمد ندیم قاسمی،،کے نام قابل ذکر ہیں۔

مزرا ادیب بھی اس فن کے بے تاج بادشاہ ہیں ان کو اس فن کی باریک بینیو ں کا علم ہے۔ ان کے ڈرامو ں میں ’’آنسو اور ستارے،لہو اور قالین اور رشتے کی دیوار‘‘ اپنی مثا ل آپ ہیں۔

اردو ڈرامے کے ارتقاء میں ترقی پسند تحریک کا حصہ:

انقلاب ، روس کے بعد ساری دنیا میں فکر کی ایک نئی لہر دوڑ گئی۔بر صغیر پاک و ہند بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے ۔چند دانشوروں نے ترقی پسند تحریک کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا۔ اس تحریک کے تحت حقیقت نگاری ڈرامے کی روح قرار پائی۔سردار جعفری ،مرزا ادیب اور پروفیسر محمد مجیب نے اس تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔

قیام پا کستان کے بعد ڈرامہ نگاری کا ارتقاء :

قیام پاکستان کے بعد کے ڈرامو ں میں اسٹیج کی رونقیں بحا ل ہو گئیں اس میں معین الدین نے ہجرت کے دکھ،اور انسانی اقدار کی پاما لی کو طنز ومزاح کے ساتھ پیش کیا، ان کے ڈرامو ں میں ’’تعلیم با لغان‘‘مرزا غالب بندر روڈ پر‘‘ اور ’’لال قلعے سے لا لو کھیت تک ‘‘ بہت نما یا ں ہیں۔فلمی اور ٹیلی ویژن کے اثرات: فلمی اور ٹیلی ویژن کے آجانے سے اسٹیج کی رونقوں میں کمی واقع آگئی۔ اس ضمن میں ان کہی، انکل عرفی، شمع، تعبیر، خاک اور خون، طاہرہ، خدا کی بستی، دیواریں وغیرہ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *